ایکنا نیوز، عراقی تجزیہ کار لؤی عبدالإلہ نے اپنے ایک مضمون میں، جو القدس العربی میں شائع ہوا، اس نکتے پر روشنی ڈالی ہے کہ یہ معاہدے جو دراصل عرب ممالک اور صہیونی ریاست کے درمیان تعلقات کے معمول پر لانے کے سلسلۂ معاہدات ہیں ، اپنے فکری و مذہبی پس منظر میں ابراہیم کی کس تصویر سے وابستہ ہیں؟
وہ لکھتے ہیں کہ بنیامین نیتن یاہو کے حالیہ بیانات، جن میں اُس نے "گریٹر اسرائیل" کے خواب کا ذکر کیا، اس سوال کو اور بھی اہم بنا دیتے ہیں۔ اگر یہ معاہدے واقعی مذاکرات کے کسی آئندہ مرحلے میں دوبارہ زیرِ غور آتے ہیں تو ضروری ہے کہ یہ طے کیا جائے کہ ان کی بنیاد تورات کے ابراہیم پر ہے یا قرآن کے ابراہیم پر۔
تورات میں مذکور ابراہیم کے بارے میں لکھا ہے کہ اُس نے اپنے والد تارَح کے ساتھ شہر اور سے حرّان (موجودہ جنوبی ترکی) کی طرف ہجرت کی، مگر اس ہجرت کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی گئی۔ بعد میں، اپنے والد کی وفات کے بعد، اُس کے خدا نے خواب میں ظاہر ہو کر اُسے حکم دیا کہ کنعان کی سرزمین کی طرف جائے، وہی زمین جسے "دودھ اور شہد کی سرزمین" کہا گیا۔ وہاں کے کنعانی لوگ اُس کے ساتھ نہایت مہمان نواز ثابت ہوئے؛ انہوں نے اُسے امن، زمین اور اچھے ہمسائے فراہم کیے۔
تاہم، کنعانیوں کی اس سخاوت کے باوجود، توراتی ابراہیم کا خواب دراصل اپنے میزبانوں کی سرزمین پر قبضہ کرنا تھا۔ ورنہ اس کے خدا کا یہ وعدہ کہ "میں تیرے بیٹوں کو ساری کنعان کی زمین عطا کروں گا" کیسے سمجھا جائے؟
تجزیہ کار کے مطابق، تورات والا ابراہیم خود تو اتنا بوڑھا تھا کہ اس وعدے کو اپنی زندگی میں پورا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا، اس لیے اس کی تکمیل کا خواب اس کی اولاد کے لیے چھوڑ دیا گیا — جو بعد میں بنی اسرائیل کی شکل میں ظاہر ہوئے۔
مزید برآں، تورات میں مذکور ابراہیم نے کبھی کنعانی قوم کو اپنے خدا پر ایمان لانے یا اس کے مذہبی طور طریقے اپنانے کی دعوت نہیں دی۔ اُس نے اپنے خاندان کے علاوہ کسی اور کو اپنے دین میں شامل نہیں کیا، جس سے مختلف اقوام اور ان کے خداؤں کے درمیان تسلیم و برداشت کی ایک فضا قائم رہی۔
تاہم، جب ابراہیم کے بیٹے اسحاق کی شادی کنعانی عورت سے ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا تو ایک شدید نفرت ظاہر ہوئی۔ اپنے میزبان کنعانیوں کے ساتھ ظاہری دوستی کے باوجود اندرونی دشمنی کا یہ احساس سارہ کی وفات کے موقع پر مزید نمایاں ہوا۔
تورات کی کتابِ پیدائش (باب 23) میں بیان ہے کہ سارہ کی وفات کے بعد ابراہیم نے کنعانی بزرگوں سے کہا: میں تمہارے درمیان ایک اجنبی ہوں، مجھے دفن کے لیے ایک جگہ دو تاکہ میں اپنے مردہ کو دفن کر سکوں۔
کنعانی بزرگوں نے بڑے احترام سے جواب دیا: تو ہمارے درمیان ایک برگزیدہ شخص ہے؛ ہم تجھے اپنی بہترین قبروں میں دفن ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔
مگر ابراہیم نے ایک مخصوص جگہ مانگی اور آخرکار 200 مثقال چاندی کے عوض ایک زمین خرید کر قانونی معاہدے کے تحت وہ جگہ حاصل کی۔
یہ وہ ابراہیم ہے جس کا تصور تورات میں موجود ہے،ایک ابراہیم جو ملکیت اور زمین کے وعدوں سے وابستہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا "ابراہیمی معاہدے" اسی توراتی تصور پر قائم ہیں؟ یا پھر وہ قرآنی ابراہیم پر، جو توحید، عدل اور انسانیت کی وحدت کا علَم بردار ہے؟
تورات کی یہ داستان مستقبل میں دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کرنے کی بنیاد بنی، جس کے نتیجے میں الخلیل شہر کے فلسطینی باشندوں سے وسیع زمینیں چھین لی گئیں اور وہاں پانچ یہودی بستیاں (شہرک) تعمیر کی گئیں۔ اسی کے ساتھ مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے مشترکہ زیارت گاہ میں بدل دیا گیا۔
اس کے برعکس، قرآن کا ابراہیم وہ نبی ہے جو تمام انسانوں کے لیے مبعوث ہوا۔ اس نے نمرود بادشاہِ بابل کے زمانے میں لوگوں کو توحید کی دعوت دی، اپنے باپ — جو بت خانہ کا نگہبان تھا،کے خلاف قیام کیا اور تمام بتوں کو توڑ کر کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا تاکہ ان کی بے بسی ظاہر ہو۔
قرآن میں بیان کردہ ابراہیم کی رسالت تمام انسانیت کے لیے ہے، اور وہ زمین جس کا وعدہ اللہ نے اس سے کیا، وہ صرف اس کی نسل کے لیے نہیں بلکہ تمام اہلِ ایمان کے لیے ہے۔
یہاں اہم سوال پیدا ہوتا ہے: اب جبکہ ابراہیمی معاہدے (Abraham Accords)— جن کے داعی امریکہ ہیں نافذ ہو رہے ہیں، تو ان کی بنیاد کس ابراہیم پر ہے؟ کیا وہ تورات کے ابراہیم ہیں، جن کے خدا نے نیل سے فرات تک پھیلی سرزمین ان کی اولاد کے لیے مخصوص کی؟ یا وہ قرآن کے ابراہیم ہیں، جنہوں نے اپنی اولاد سے بھی بلند ہو کر یہ زمین تمام مؤمنین یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے قرار دی؟
مصنف کے مطابق، آج جو نسل کشی (Genocide) اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف کر رہا ہے، اور جو بستیاں مغربی کنارے اور مشرقی بیت المقدس میں مسلسل تعمیر کی جا رہی ہیں، نیز جو لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں سے بےدخل کیے گئے یہ سب اس پالیسی کا حصہ ہیں جو دین سے بیزار اور مذہبی یہودی دونوں یکساں طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔ ان سب کا مقصد تورات کے اُس وعدے کو پورا کرنا ہے جو "ابراہیم کے خدا" نے دیا تھا یعنی نیل سے فرات تک کی زمین ان کی اولاد کے لیے۔
اسی تناظر میں، امریکہ کی غیر مشروط حمایت دراصل ابراہیمِ توراتی کے وعدے کو پورا کرنے کی سیاسی کوشش ہے، نہ کہ ابراہیمِ قرآنی کے پیغامِ توحید و انسانیت کی۔
مصنف لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی زیرِ سرپرستی تیار کیے گئے ابراہیمی معاہدے دراصل اسی وعدے کی پہلی کڑی ہیں ، ایک ایسا ابتدائی قدم جو خطے پر بتدریج قبضے اور نیتن یاہو کے "گریٹر اسرائیل" کے خواب کی تعبیر کی طرف لے جاتا ہے۔
اگر آج ابراہیمِ توراتی اور ابراہیمِ قرآنی ایک دوسرے سے ملاقات کرتے، تو ان کے درمیان اختلاف اتنا گہرا ہوتا کہ کوئی یہ پیش گوئی نہ کر سکتا کہ یہ کہاں جا کر ختم ہوگا۔
مصنف کے مطابق، آج جو کچھ غزہ اور مغربی کنارے میں بنیادی ڈھانچوں کی تباہی کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے، اور جو اعلانات صہیونی حکام کی جانب سے ان علاقوں پر دوبارہ قبضہ اور فلسطینی ریاست کے خاتمے سے متعلق کیے جا رہے ہیں، وہ فلسطینیوں کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
عرب ممالک کی جانب سے اگرچہ مذمتیں جاری رہتی ہیں، مگر وہ غیر مؤثر اور بےنتیجہ ہیں۔ یہی بےحسی اسرائیل کو یہ یقین دلا رہی ہے کہ دنیا تورات کے اُس وعدے کو بھول چکی ہے جس کے مطابق نیل سے فرات تک کی سرزمین ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے۔
اسی پس منظر میں، آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہودی بنیاد پرست گروہ دنیا بھر میں سرگرم ہیں، جو ایسے افراد کو تلاش کر رہے ہیں جن کی نسبت حضرت موسیٰؑ کی نسل سے ہو۔ ان کے بعض اجداد نے مختلف ادوار میں دیگر مذاہب اختیار کیے تھے، لیکن اب وہ اپنی "کھوئی ہوئی یہودیت" کی طرف واپس لائے جا رہے ہیں۔
مصنف کے مطابق، اس وسیع زمین پر قبضے کے بعد وہاں کی آبادی کو بسانے کے لیے تقریباً 80 ملین (آٹھ کروڑ) یہودیوں کی ضرورت ہوگی۔ اگر یہ گروہ اس تعداد کا نصف بھی جمع کر سکے تو "تورات کے خدا کا وعدہ" پورا ہو جائے گا۔ اس مقصد میں ان کی مدد امریکی انجیلی عیسائی کر رہے ہیں، جو یہود کی فلسطین واپسی کو مسیح کے ظہور کی علامت سمجھتے ہیں۔
عرب حکمرانوں نے، مصنف کے مطابق، ان معاہدوں پر دستخط کرنے سے پہلے کبھی یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ان معاہدوں کی نگرانی کس ابراہیم کے تحت ہوگی — توراتی یا قرآنی؟
کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تورات کا وعدہ عملاً پورا کیا جا رہا ہے، اور اسرائیل کو صرف اپنے پڑوسیوں کی رسمی منظوری درکار ہے تاکہ سب "ابراہیمِ توراتی" کے سائے تلے جمع ہو جائیں۔/
4306464