فلسفه‌امید تسلط کے حربے کے خلاف

IQNA

یادداشت

فلسفه‌امید تسلط کے حربے کے خلاف

8:22 - October 22, 2025
خبر کا کوڈ: 3519361
ایکنا: گزشتہ روز رہبرِ انقلاب نے علمی و کھیلوں کے منتخب نوجوانوں سے جو گفتگو کی، وہ صرف ایک سیاسی بیان نہیں بلکہ امید کے فلسفے کی بازخوانی تھی۔

ایکنانیوز- یہ اس زمانے میں انسانی چہرے والی طاقت کی یاد دہانی تھی، جب طاقت اپنی روحِ انسانی سے خالی ہو چکی ہے۔

اس دنیا میں جہاں جھوٹ طاقت کی سرکاری زبان بن چکا ہے اور سچائی حاشیے میں سانس لیتی ہے، وہاں امید کی بات کرنا خود ایک مزاحمت ہے۔ رہبرِ انقلاب کی گفتگو دراصل اس مزاحمت کی علامت تھی ، ایک ایسی کوشش جو دکھاتی ہے کہ طاقت کی اصل بنیاد ایمان، شعور اور انسان دوستی ہے، نہ کہ زر اور زور۔

رہبر کے کلام میں جو بات نمایاں تھی، وہ یہ کہ طاقت کو اپنے باطن سے پہچانو؛ وہ طاقت جو ایمان اور خود آگاہی سے ابھرتی ہے، نہ کہ جنگ اور سرمایہ سے۔ ان کے نزدیک ایرانی نوجوان اسی خود آگاہی کی علامت ہے — وہ انسان جو دباؤ، ناامیدی اور پروپیگنڈے کے طوفان کے درمیان تخلیق کرتا ہے، تعمیر کرتا ہے اور مسکراتا ہے۔ یہ نوجوان دراصل قوم کا زندہ جواب ہے اس "نرم جنگ" کو جو مایوسی پھیلانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔

دشمن برسوں سے ایک تھکا ہوا، شکستہ قوم کی تصویر تراشنے میں مصروف ہے ، ایک ایسی قوم جو اپنے مستقبل سے مایوس ہو۔ لیکن ہر سونے کا تمغہ، ہر سائنسی دریافت اور ہر تخلیقی قدم اس جھوٹے بیانیے کی دیوار کو منہدم کر دیتا ہے۔ یہ کامیابیاں صرف انفرادی فتوحات نہیں بلکہ اجتماعی بیداری کی علامت ہیں — اس بات کا ثبوت کہ یہ معاشرہ ابھی زندہ ہے اور اپنی توانائی پر ایمان رکھتا ہے۔

رہبر کی گفتگو میں دو طاقتوں کا فرق واضح ہوا: ایک وہ طاقت جو تحمیل اور تسلط سے پیدا ہوتی ہے ، یعنی امریکی طرز کی طاقت جو زندہ رہنے کے لیے قتل کرتی ہے؛ اور دوسری وہ جو ایمان، خلاقیت اور خدمت سے جنم لیتی ہے  وہ طاقت جو زندگی بخشتی ہے۔ یہ فرق بظاہر سیاسی ہے مگر درحقیقت فلسفیانہ ہے؛ کیونکہ ایک کا سرچشمہ خوف ہے اور دوسرے کا امید۔

امریکہ کے صدر کی لغویات پر مبنی بیانات کا ذکر بھی صرف سیاسی تنقید نہیں تھا بلکہ مغربی تہذیب کے اندرونی انہدام کی نشاندہی تھی

ایک ایسی تہذیب جو سچ سے بات کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہے اور صرف جھوٹ سے زندہ ہے۔ جب طاقت اپنے ہی عوام کو امن نہیں دے سکتی مگر دنیا پر حکومت کرنا چاہتی ہے، تو وہ دراصل وجودی بحران (Existential Crisis) میں مبتلا ہوتی ہے ۔ ایسا لمحہ جب طاقت کا ظاہر چمکدار ہوتا ہے مگر اس کی روح خالی۔

اس انہدام کے مقابلے میں، رہبرِ انقلاب نے امید کو طاقت کا جوہر قرار دیا۔ ایرانی ثقافت میں امید صرف ایک احساس نہیں بلکہ ایک عملی رویہ ہے۔ ان کے جملوں میں پرچم کے احترام اور سجدۂ شکر کا ذکر، طاقت اور اخلاق کے ربط کی یاد دہانی تھی۔

آخر میں ان کے کلمات نے انسان، طاقت اور امید کے باہمی تعلق کو نئی معنویت دی۔ انہوں نے سادہ مگر گہری زبان میں بتایا کہ حقیقی طاقت دوسروں پر غلبے میں نہیں بلکہ اپنے نفس پر قابو پانے میں ہے؛ اور وہ قوم جو خوف اور ناامیدی پر غالب آ جائے، اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

آج کے عصرِ ناامیدی میں، ایرانی امید محض جذباتی ردعمل نہیں بلکہ بقا کی حکمتِ عملی اور حیات کا فلسفہ ہے۔
شاید ان کے کلام کا خلاصہ یہی ہے: اس دنیا میں جہاں سچائی کو حاشیے پر دھکیل دیا گیا ہے، ہر وہ نوجوان جو ایران میں سوچتا ہے، بناتا ہے، اور کل پر ایمان رکھتا ہے  خود ایک زندہ حقیقت ہے۔/

 

4311939

نظرات بینندگان
captcha