
ایکنا نیوز، عربی 21 نے رپورٹ دی ہے کہ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر سرگرم کارکنان نے ایک ایسی مہم کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد قابض صہیونی حکومت کے خلاف بائیکاٹ کی تحریک کو جاری رکھنا ہے۔
مہم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اسرائیلی قبضہ ختم نہیں ہوتا۔ مہم کے آغاز کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ہزاروں پوسٹس سامنے آئیں جن میں صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
ان پوسٹس میں ان کمپنیوں کی معلومات بھی شامل تھیں جو اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں، نیز ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں جو صہیونی مظالم اور جنگی جرائم کو دستاویزی طور پر دکھاتی ہیں۔
دنیا بھر میں اسرائیلی حکومت کے بائیکاٹ کے مطالبات میں غیر معمولی تیزی آئی ہے۔ کئی سالوں تک یہ تحریک نسبتاً کمزور پڑ چکی تھی، لیکن اب یہ ایک بینالاقوامی رجحان کی شکل اختیار کر چکی ہے، جہاں فنکار، کھلاڑی اور نمایاں سیاسی شخصیات غزہ میں اسرائیل کی نسلکشی پر مبنی جنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر اس تحریک کی حمایت کر رہے ہیں۔
گارڈین اخبار کے مطابق، غزہ کی جنگ نے اس "پرانے اتفاقِ رائے" کو منہدم کر دیا ہے جو طویل عرصے تک تلابیب کو عالمی دباؤ سے بچاتا رہا۔ اس کے علاوہ، اب اسرائیلی کمپنیوں اور ان کے تجارتی شراکت داروں کے بائیکاٹ، کھیلوں و ثقافتی تقریبات میں اسرائیل کی شرکت کی ممانعت، اور تعلیمی تعاون کی معطلی کے مطالبات تیزی سے مرکزی دھارے میں داخل ہو رہے ہیں۔
گارڈین نے مزید لکھا کہ اگرچہ اس کی زیادہ تر انٹرویوز اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگبندی کے اعلان سے پہلے کی گئی تھیں، تاہم فعال کارکنان نے واضح کیا کہ وہ اپنا دباؤ جاری رکھیں گے۔
بائیکاٹ، سرمایہکاری کی منقطعگی اور پابندیوں کی تحریک (BDS) نے جنگبندی کے منصوبے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے "صہیونی فاشسٹ حکومت کی بینالاقوامی تنہائی سے نجات کے لیے رچی گئی سازش" قرار دیا۔ اس تحریک نے عالمی سول سوسائٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی ریاست کے خلاف اپنی کوششوں کو مزید تیز کرے۔/
4315407