
ایکنا نیوز، اخبار صدی البلد نے رپورٹ دی ہے کہ 11 نومبر (20 آبان) کو شیخ عبدالفتاح شعشاعی کی برسی منائی جاتی ہے — وہ خوشالحان قاری جن کا نام دنیاے اسلام کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو چکا ہے۔
شیخ شعشاعی 21 مارچ 1890 کو مصر کے صوبہ منوفیہ کے ایک گاؤں شعشا میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قرآنِ کریم کو اپنے والد شیخ محمود شعشاعی کے زیرِ نگرانی دس سال کی عمر سے قبل ہی حفظ کر لیا اور 1900 میں حفظِ قرآن مکمل کیا۔ بعد ازاں وہ تعلیم کے لیے مسجد احمدی، طنطا گئے، جہاں انہوں نے احکامِ تجوید روایتی انداز میں سیکھے۔ انہوں نے شیخ بیومی اور شیخ علی سبیع جیسے جید علما سے قرآن کی قراءت کا فن حاصل کیا اور پھر قاہرہ کے علاقے درب الاحمر میں سکونت اختیار کی۔
یہیں سے ان کی شہرت کا آغاز ہوا، اور وہ شیخ محمد رفعت، شیخ علی محمود اور شیخ احمد ندا جیسے نامور قراء کے درمیان نمایاں ہوئے۔ شیخ شعشاعی کی اصل شہرت اس وقت ہوئی جب انہوں نے امام حسینؑ کے میلاد کی اختتامی شب میں دیگر معروف قراء کے ساتھ تلاوت کی۔ سامعین ان کی آواز کی مٹھاس اور تلاوت کے خشوع سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ان کا نام قرآن کی تلاوت کی دنیا میں چمکنے لگا اور عرب و اسلامی دنیا میں گونج اٹھا۔
ان کا انداز وقار، نرمی اور فنی مہارت کا حسین امتزاج تھا، اسی لیے وہ ”فنِ تلاوت کا ستون“ کہلائے۔
ابتدائی دنوں میں شیخ شعشاعی نے دینی نعت خوانی (تواشیح و ابتهال) کے لیے ایک گروپ تشکیل دیا، لیکن 1930 میں گلے کی بیماری کے باعث انہوں نے اس کام سے کنارہ کشی اختیار کی اور پوری زندگی قرآن کی تلاوت کے لیے وقف کر دی۔ اس کے باوجود وہ اپنے پرانے ساتھیوں سے وفادار رہے اور ان کے انتقال تک ماہانہ مالی مدد کرتے رہے۔
شیخ شعشاعی مائیکروفون پر تلاوت کو ابتدا میں حرام سمجھتے تھے، لیکن 1934 میں جب اس کے جواز کا فتویٰ جاری ہوا، تو وہ ریڈیو مصر سے وابستہ ہوگئے۔ شیخ محمد رفعت کے بعد وہ دوسرے قاری تھے جنہوں نے ریڈیو پر باقاعدہ تلاوت شروع کی، اور ان کی سالانہ تنخواہ 500 مصری پاؤنڈ مقرر ہوئی۔
انہوں نے 400 سے زائد تلاوتیں ریڈیو کے لیے ریکارڈ کیں جو آج بھی نشر ہوتی ہیں۔ شیخ شعشاعی مکہ مکرمہ کے مسجد الحرام، مدینہ منورہ کے مسجد النبی ﷺ، اور عرفات کے دن (1948) میں بلند آواز میں قرآن پڑھنے والے پہلے قاری تھے۔ انہوں نے 1954، 1958 اور 1961 میں عراق کا سفر کیا اور وہاں کے بڑے اسلامی اجتماعات میں قرآن کی تلاوت کی۔
ان کی خدمات کے اعتراف میں مصر کی وزارتِ اوقاف نے انہیں کئی انعامات دیے، اور 1990 میں انہیں ”نشانِ علوم و فنون (درجہ اول)” سے نوازا گیا۔

یہ عظیم قاری اپنی پوری زندگی قرآن کی خدمت کے لیے وقف رہے، یہاں تک کہ 11 نومبر 1962 کو 72 سال کی عمر میں وفات پائی۔ وہ اپنے پیچھے تلاوت کا عظیم صوتی ورثہ اور ایک نیک فرزند، شیخ ابراہیم شعشاعی، چھوڑ گئے جنہوں نے اپنے والد کا مشن جاری رکھا۔
آخر میں رپورٹ کے مطابق، ذیل میں وہ واحد ویڈیو دیکھی جا سکتی ہے جس میں استاد عبدالفتاح شعشاعی نے 1958 میں قصرِ عابدین، قاہرہ میں رویتِ ہلالِ رمضان کے موقع پر تلاوت کی تھی۔/
4316196