
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، وہ زمانہ جب عراق سکون اور اطمینان کا گہوارہ تھا، ایسے ہی دنوں میں ایک ایسا لمحہ آیا جس نے قرآن کی صوت و لحن کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا۔ وہ دن جب بے مثال قاری، عبدالباسط محمد عبدالصمد، حرمِ مطہر امام موسیٰ کاظمؑ کے روشن صحن میں داخل ہوئے؛ وہ لمحہ جس میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ کاظمین کا آسمان بھی ان کی آواز سننے کے لیے سانس روکے کھڑا ہے۔
حرم کی فضا زائرین کی خوشبو سے معطر تھی، چراغوں کی روشنی ضریح پر لرز رہی تھی اور زیارت کی ہلکی ہلکی سرگوشیاں ماحول میں گونج رہی تھیں۔ اچانک زائرین میں ایک موج سی اٹھتی ہے، سب کی نگاہیں ایک سمت مڑتی ہیں۔ ایک باوقار، پُرسکون اور نورانی چہرے والا نوجوان اندر داخل ہوتا ہے۔ استاد عبدالباسط، ضریح کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں، مؤدبانہ سلام عرض کرتے ہیں، آنکھیں بند کرتے ہیں اور لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔ یہ خاموشی دراصل تاریخ کی سب سے پُرتاثیر تلاوتوں میں سے ایک کا آغاز تھی۔
جوں ہی ان کے گولڈن گلے سے پہلی آیات جاری ہوئیں، پورا حرم یکایک بدل گیا۔ ان کا بے مثال لحن فضا میں بکھر گیا، اور قدیمی صحنوں کی گونج ہر آیت کو کئی گنا زیادہ روح پرور بنا رہی تھی۔ زائرین بے اختیار رونے لگے؛ کچھ ہاتھ باندھے کھڑے تھے، کچھ زمین پر بیٹھ کر محویت اور جذب میں ڈوب گئے۔ لوگوں کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ یہ آواز صرف کانوں ہی میں نہیں بلکہ دلوں اور روحوں پر نازل ہو رہی ہے۔
عبدالباسط کی تلاوت میں سورۂ حشر کی آیات 18 سے آخر تک، سورۂ تکویر اور سورۂ فجر کی آیات 27 سے آخر تک شامل تھیں۔ یہ تلاوت محض ایک فنی کارنامہ نہیں تھی بلکہ ایک روحانی مشاہدہ، ایک باطنی ملاقات تھی۔ یہ تلاوت اُس وقت پیش کی گئی جب معروف اساتذہ جیسے ابوالعینین شعیشع اور عبدالفتاح شعشاعی بھی موجود تھے اور امام موسیٰ کاظمؑ کے صحن کا نورانی ماحول اس لمحے کو مزید مقدس بنا رہا تھا۔
عبدالباسط کی آواز آیات کا منظر زندہ کر دیتی تھی۔ ان کا ہر تحریر، ہر وقفہ، ہر اتار چڑھاؤ حرمِ کاظمین کی پاک فضاؤں میں ایک لطیف جھونکے کی مانند تھا۔ حتیٰ کہ حرم کے خادم اور محافظ بھی کچھ دیر کے لیے ٹھٹھک کر رہ گئے؛ کوئی بھی اس الہامی تلاوت کا ایک لمحہ بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔
یہ تاریخی تلاوت زمان و مکان کی قیود سے ماورا ہو کر اہلِ بیتؑ سے عبدالباسط کی محبت کی علامت بن گئی،وہ محبت جس کا وہ خود بھی بارہا اظہار کرتے تھے۔ اس دن انہوں نے آیات ایسے انداز میں پڑھیں گویا فرشتوں کے سامنے قرات کر رہے ہوں۔
آج، ان کی وفات کی برسی پر، دہائیاں گزر جانے کے باوجود وہ آواز اب بھی زندہ ہے۔ جب بھی حرمِ امام کاظمؑ میں ان کی تلاوت گونجتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا اسی لمحے ہم دوبارہ اُس بغداد میں واپس پہنچ گئے ہوں جذبات، آنسوؤں اور آسمانی آیات کے سفر میں۔
عبدالباسط رخصت ہو گئے، مگر ان کی آواز تاریخ میں امر ہو گئی۔ وہ آواز جو ہمیشہ کے لیے حرمِ کاظمین کے دل میں ثبت ہو چکی ہے۔
قرآن کے اس افسانوی قاری کی پیدائش 1927ء (1306 شمسی) میں مصر میں ہوئی، اور وہ 30 نومبر 1988ء (1367 شمسی) کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔/
4320214