سڈنی واقعے کے بعد مسلمان دوغلی پالیسی کا شکار

IQNA

سڈنی واقعے کے بعد مسلمان دوغلی پالیسی کا شکار

5:21 - December 19, 2025
خبر کا کوڈ: 3519671
ایکنا: سڈنی کے بونڈی ساحل پر یہودیوں کی تقریب پر حملے نے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ سوشل میڈیا اور انتہاپسند حلقے ہر موقع کو مسلمانوں اور مہاجرین کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایکنا نیوز، trtworld  نیوز کے مطابق، سڈنی کے بونڈی ساحل پر یہودیوں کی تقریب پر ہونے والے حملے نے ایک پیچیدہ حقیقت کو آشکار کیا ہے: اگرچہ تشدد کا نشانہ ایک یہودی مذہبی تقریب بنی، مگر جس شخص نے اس حملے کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا وہ خود ایک مسلمان تھا۔ یہ امر آسٹریلیا میں اس دوہرے معیار کو بے نقاب کرتا ہے جس کے تحت کسی ایک مذہب کے پیروکاروں کو موردِ الزام ٹھہرانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔

احمد الاحمد، ایک مسلمان پھل فروش اور بونڈی ساحل پر موجود افراد میں سے ایک، نے حملہ آور کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس حملے کو ناکام بنانے میں مدد دی۔ اس دوران انہوں نے اپنی جان کو براہِ راست خطرے میں ڈالا۔

یہ رپورٹ پاکستانی تجزیہ نگار سید انس کے ایک مضمون پر مبنی ہے، جس میں اس واقعے کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔ مضمون کا خلاصہ درج ذیل ہے:

سڈنی کے بونڈی ساحل پر فائرنگ کا واقعہ، جو یہودیوں کے تہوار حنوکا کے پہلے دن پیش آیا، سب سے بڑھ کر ایک گہرا انسانی المیہ اور جڑ پکڑے ہوئے تشدد کی مثال تھا۔ جو لمحہ مذہبی عبادت اور اجتماعی اجتماع کے لیے مختص تھا، اسے بے رحمی سے خون میں نہلا دیا گیا۔ کم از کم ۱۵ افراد جان سے گئے، خاندان سوگوار ہوئے اور پورا شہر غم میں ڈوب گیا۔

اس واقعے پر کسی بھی بحث کا آغاز اس حقیقت کے اعتراف سے ہونا چاہیے کہ یہ حملہ ایک مقدس وقت میں یہودی برادری کو نشانہ بنانے کے مترادف تھا اور متاثرین انصاف کے حق دار ہیں۔

تاہم تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ اس نوعیت کے اجتماعی صدمات شاذ و نادر ہی صرف سوگ تک محدود رہتے ہیں۔ مغربی معاشروں اور دنیا کے کئی حصوں میں عوامی تشدد کے واقعات تیزی سے وسیع تر سیاسی بیانیوں کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں، اکثر اس سے پہلے کہ تحقیقات مکمل ہوں یا محرکات واضح ہو سکیں۔

حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد سوشل میڈیا بالخصوص X جیسے پلیٹ فارمز مسلمانوں کے خلاف قیاس آرائیوں، طنزیہ تبصروں اور کھلے الزامات سے بھر گئے۔ اسلام، مہاجرت یا "مسلم انتہاپسندی" کو تشدد سے جوڑنے والی پوسٹس، کسی مصدقہ ثبوت کے بغیر، تیزی سے پھیلتی چلی گئیں۔

بعض صارفین نے یہاں تک کیا کہ کرسمس سے متعلق آتش بازی کی ویڈیوز شیئر کر کے یہ دعویٰ کیا کہ "اسلام پسند" بونڈی ساحل پر یہودیوں کے قتل پر جشن منا رہے ہیں۔ بعض غلط معلومات مضحکہ خیز حد تک پہنچ گئیں۔

یہ بے بنیاد ردِعمل اس وقت بھی شدت اختیار کرتا رہا جب حکام ضبط و تحمل کی اپیل کر رہے تھے اور تحقیقات جاری تھیں۔ اس سب میں ایک ایسی حقیقت کو نظرانداز کیا گیا جو اس بیانیے کو پیچیدہ بناتی ہے، مگر جسے نمایاں کرنے کی کوشش کم ہی کی گئی۔

حملہ آور کو قابو میں کرنے والے مسلمان شہری کے کردار کو نظرانداز کرنا

حملہ آور کو روکنے کے لیے مداخلت کرنے والوں میں ایک مسلمان بھی شامل تھا۔ احمد الاحمد، جو بونڈی ساحل پر موجود ایک پھل فروش ہیں، نے فائرنگ کرنے والے شخص کا مقابلہ کیا، اسے بے اسلحہ کرنے میں مدد دی اور خود کو براہِ راست خطرے میں ڈال دیا۔ ان کے اقدامات نے بلاشبہ کئی جانیں بچائیں۔

اس کے باوجود، احمد الاحمد کے کردار کو سوشل میڈیا میں اتنی توجہ نہیں ملی جتنی مسلمانوں کو بطورِ مجموعی بلاجواز موردِ الزام ٹھہرانے والی مہمات کو ملی۔

جب کوئی حملہ آور مسلمان ہو۔ یا محض مسلمان سمجھ لیا جائے، تو ایسے واقعات کو فوراً "تہذیبی خطرے" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں نگرانی سخت کرنے، مذہبی اظہار پر پابندیاں لگانے اور مہاجرتی قوانین مزید سخت کرنے کے مطالبات سامنے آتے ہیں۔

لیکن جب حملہ آور مسلمان نہ ہو تو معاملہ ذہنی صحت کے بحران، کسی تنہا مجرم یا نفسیاتی بگاڑ کی طرف موڑ دیا جاتا ہے۔

نتیجتاً تشدد کے بارے میں ایک انتخابی پالیسی جنم لیتی ہے، جس میں شواہد کے بجائے شناخت تشریح کا تعین کرتی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو کسی تصدیق کی ضرورت نہیں ہوتی؛ یہ خوف، ابہام اور بار بار دہرائے جانے سے پروان چڑھتی ہے۔/

 

4323247

نظرات بینندگان
captcha