
ایکنا نیوز کی رپورٹ کے مطابق، تھائی لینڈ میں منعقدہ بین المذاہب مکالمے کی چوتھی نشست کے دوران شیخ الاسلام اور تھائی مسلمانوں کے رہنما آرون بوشنام نے اسلامی ثقافت و تعلقات کی تنظیم کے سربراہ سے ملاقات میں فلسطین اور غزہ کی مظلوم قوم کی حمایت میں مسلم معاشرے کی بعض سرگرمیوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ انسانی امداد کی ترسیل سے لے کر مسلسل حمایت تک مختلف صورتوں میں مسلمانوں کی عوامی مدد، اسلامی یکجہتی کی گہرائی اور غزہ کے عوام کے ساتھ عملی ہمدردی کی واضح علامت ہے۔
تھائی لینڈ کے مسلمانوں کے رہنما نے صہیونی رژیم کے مظالم کے خلاف ایرانی عوام کی مزاحمت کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا: صہیونی رژیم کی جارحیت کے مقابل ایرانی قوم کی مزاحمت ایک قابلِ تحسین اور حوصلہ افزا نمونہ ہے۔ ہم ہمیشہ پُرامید دل کے ساتھ ایرانی قوم کی کامیابی کے لیے دعا کرتے ہیں اور اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ایران، مزاحمت اور خودمختاری کی علامت کے طور پر، اسلامی ممالک کے درمیان ہمیشہ ایک رہنما اور پیش قدم کے طور پر پہچانا گیا ہے اور یہ اسلامی دنیا کی اجتماعی قوت اور ارادے کا مظہر ہے جو زیادتیوں کے مقابل ڈٹا ہوا ہے۔

تھائی لینڈ میں ایران کے ثقافتی مشیر: دینی مکالموں کی مؤثریت کی شرط احترام اور بامعنی سماعت ہے
تھائی لینڈ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے ثقافتی مشیر مہدی زارع بیعیب نے بھی بین المذاہب مکالمے کی چوتھی نشست میں اس اجتماع کو عصرِ حاضر کی دنیا میں مکالمے، تعامل اور ادیان کی مشترکہ ذمہ داری کی اہمیت کی واضح علامت قرار دیا۔
انہوں نے اس نشست میں تھائی لینڈ کی شاہی پارلیمنٹ کے سربراہ نورمحمد ماتا کی موجودگی کو اس بات کا مظہر قرار دیا کہ ملک کے اعلیٰ ادارے قومی اور بین الاقوامی سطح پر مذہبی ہم آہنگی، تعمیری مکالمے اور ثقافتی تعاون کے فروغ کو اہمیت دیتے ہیں۔

ایران کے ثقافتی مشیر نے اسلامی جمہوریہ ایران کے وفد کی موجودگی کا بھی ذکر کیا، جس کی قیادت حجت الاسلام والمسلمین ایمانی پور (سربراہ تنظیمِ ثقافت و اسلامی روابط) کر رہے تھے، اور کہا کہ فعال اور مستقبل نگر انداز میں یہ شرکت ثقافتی و دینی مکالموں کے فروغ، اقوام کے درمیان روابط کے استحکام اور بین المذاہب اقدامات کی حمایت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے نئے سفیر ناصرالدین حیدری نے اپنے خطاب میں کہا: آج ہم ایسی دنیا میں جمع ہوئے ہیں جو ٹیکنالوجی اور جغرافیائی اعتبار سے تو جڑی ہوئی ہے، مگر معنوی طور پر گہری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں تکنیکی ترقی کی آواز اتنی بلند ہے کہ کبھی فطرت کی فریاد اور مظلوموں کی آہیں اس شور میں دب جاتی ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ آج کا دینی رہنما وہ ہے جو امن کو صرف الفاظ میں نہیں بلکہ انسانی وقار کے تحفظ کے لیے ایک الٰہی ضرورت کے طور پر فروغ دے، اور اس بات کی اجازت نہ دے کہ دین کے مقدس نام کو تفرقہ اور تشدد کے لیے استعمال کیا جائے۔/
4324700