ایکنا نیوز-شفقنا-عروۃ الوثقیٰ کے سربراہ نے کہا کہ مرحوم مفتی رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے سیاہ ترین دنوں میں ملت کی قیادت سنبھالی تھی ، اُس وقت پاکستانی تاریخ کا سفاک ترین حکمران اقتدار پر قابض تھا اور پاکستان میں مارشل لا لگاہوا تھا، یعنی ضیاء الحق اُس دور کا حاکم تھا جو پلید حکمران گزرا ہے ۔ جس نے پاکستان اور پاکستانی اداروں کو تباہ کیا اور پاکستان کو اس حالت میں پہنچانے والا یہ مکار شخص تھا ، اس نے اپنے ساتھ نام نہاد مذہبیوں کو ملایا اور ملک و مذہب دونوں کو تباہ کیا، اس نے مذہب کے نام پر نفرت پھیلائی اور اس وقت تمام شیعیان پاکستان جمع ہوئے اور اپنے لئے سربراہ انتخاب کرنا چاہا، اُس وقت سب کی نگاہیں مرحوم مفتی رحمۃ اللہ علیہ پر پڑیں ، اگر اُس وقت ضیاء الحق کی حکومت نہ ہوتی اور بننے والے قائد کیلئے پوسٹیں اور بجٹ ملنا ہوتا تو ممکن ہے کہ یہ قرعہ کسی اور کے نام پر نکلتا لیکن سب کو معلوم تھا کہ سامنے ایک سفاک طاغوت ہے ، اس کا مقابلہ کوئی اور ریاکار نہیں کر سکتا بلکہ اس کا مقابلہ کوئی خود دار کرسکتا ہے، جو بکتا نہ ہو، لہٰذا سب کو معلوم تھا کہ یہ تنہا شخصیت نہیں بکے گی ، اس لئے مرحوم مفتی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سب کی نظریں اٹھیں اور قائد انتخاب کئے گئے ۔
انہوں نے کہا کہ اس زمانے میں کھرے اور کھوٹے کو پرکھنے کی کسوٹی امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی ذات ہے ، تمام شخصیات محترم و قابلِ احترام ہیں لیکن وہ جو آج ملتِ اسلامیہ کی دردوں کی دوا کر سکتے ہیں ، جو آج ملتِ اسلام کی مشکلات کو حل کر سکتے ہیں ، وہ امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی ذات ہے ۔ وہ جو امت کی مشکل حل کر سکے اور امتوں کو راہ دکھا سکے یعنی وہ جو آج کی امتوں کیلئے اسوہ ہیں وہ امام خمینیؒ کی ذات ہے اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے زہد و تقویٰ کی جھلک مرحوم مفتی ؒ میں موجود ہے ۔
حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی نے کہا کہ مفتی جعفر حسین رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کی ایک خصوصیت طاغوت سے انکار تھا، چونکہ خود دار تھے لہٰذا مفتی ؒ نے طاغوت کو ناکام کر دیا ، نہ صرف اسلام آباد کے اجتماع میں ناکام کیا بلکہ ہر لحظے طاغوت کو ناکام کیا، آپؒ کو خریدنے کیلئے حکومت صبح و شام اپنے کارندے اور واسطے دوڑا رہی تھی لیکن آپؒ ہر ایک منع کر کے واپس کر دیتے تھے ۔اور یہ طاغوت کی روزانہ شکست تھی ۔ کبھی بھی مفتیؒ صاحب نے طاغوت کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا، اور نہ سمجھوتہ کر کے اس پر فخر کیا۔ ضیاء الحق چاپلوس پسند بھی تھا لیکن آپؒ نے کبھی بھی طاغوت کی چاپلوسی نہیں کی بلکہ ہر دن اُس کی ناک رگڑی۔ یعنی یہ شخصیت طاغوت پرست نہیں بلکہ طاغوت ستیز تھی ، کوئی بہانہ نہیں ڈھونڈا، نہ مصلحت ملت اور نہ مصلحتِ دین اور نہ مصلحتِ ذات ، بلکہ طاغوت کے سامنے قیام کیا۔
جواد نقوی نے موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت حکومت نے ایک کام مصلحت سمجھ کر کیا ہوا ہے اور وہ بیلنس پالیسی ہے کہ ہم پر یہ تہمت نہ لگے کہ یک طرفہ کسی مسلک و فرقے کے خلاف کاروائی ہو رہی ہے اور اس تہمت کو دھونے کیلئے ہم سب کے خلاف کاروائیاں کر رہے ہیں اور ہر مدرسے کے اندر چھاپہ ما ررہے ہیں ، ہر شخصیت کو پکڑ کر اُس کی تفتیش کر رہے ہیں ، گرفتاریاں کر رہے ہیں تاکہ کوئی یکطرفہ کاروائی نہ کہے ، یکطرفہ ہی ہونا چاہئے، کیوں کہ دہشت گرد یکطرفہ گروہ کا ہی نام ہے ۔ آپ دہشت پر بھی حملہ کرے اور شیعہ کو پکڑے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ صرف دہشت گردوں کے خلاف یکطرفہ کاروائی ہے ، تاکہ ہم یہ بھی کہہ سکے کہ شیعہ بھی ہم نے پکڑے ہیں ، اس سے ملک کے اندر مزید مایوسی پھیلے گی اور عدمِ تحفظ کا احساس پھیلے گا، یہ درست کام نہیں ہے ، یہ پالیسی نہ ملک کے مفاد میں ہے ، نہ قوم کے مفاد میں ہے اور نہ تشیع کے مفاد ہے اور نہ حکومت کے مفاد ہے ، جب کسی نے کوئی جرم کیا ہی نہیں ہے ، شامل ہی نہیں ہے تو اس کو کیوں اس طرح بیلنس پالیسی کے تحت پکڑ رہے ہو؟ بیلنس کی پالیسی انصاف کی پالیسی نہیں ہے کہ گناہکار کے ساتھ بے گناہ بھی پکڑا جائے ۔