ایکنا نیوز، صدی البلد نیوز کے مطابق احمد الطیب، شیخ الازہر، نے مصر میں قائم مدرسۂ حفظ و تجوید قرآن "امام الطیب" کے غیرملکی قرآن آموز طلبہ کا استقبال کیا اور اس ملاقات پر خوشی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ الازہر نے قرآن کی تعلیم اور علومِ قرآنی کے فروغ کے لیے بڑی محنت کی ہے اور اس مرکز میں غیرملکی طلبہ کو حفظِ قرآن، علومِ قرآن سے آشنائی اور قراءت کی درست ادائیگی کی تربیت کا موقع فراہم کیا ہے۔
شیخ الازہر نے کہا کہ الازہر کا اسلامی مرکز غیرملکی طلبہ کی مدد کرتا ہے تاکہ وہ آیاتِ قرآن کو صحیح طریقے سے سیکھ سکیں، تجوید اور قراءت کے احکام میں مہارت حاصل کریں، اور میانہ روی و اعتدال پر مبنی پیغام کو پھیلائیں۔
اپنی بچپن کی یادیں بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ہر روز نمازِ فجر کے بعد، ناشتہ کیے بغیر مکتب جایا کرتے تھے تاکہ قرآن کے نئے حصے یاد کریں اور پہلے یاد شدہ حصے کو دہرا سکیں، کیونکہ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ اگر قرآن آموز ناشتہ کر لیں تو سستی اور کاہلی آ جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا: "ہمارے قرآن کے استاد کو 'خطیب' کہا جاتا تھا کیونکہ وہ قرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ وعظ بھی کرتے تھے۔ انہیں یہ خاص مہارت حاصل تھی کہ بیک وقت ایک سے زیادہ طلبہ کی قراءت درست کر سکتے تھے۔ وہ کھجور کی چٹائی پر بیٹھتے اور ہم زمین پر لوہے کی تختیوں اور نی کے قلموں کے ساتھ بیٹھ کر لکھتے پڑھتے تھے۔
احمد الطیب نے کہا کہ اس زمانے میں بہترین حفاظ اور وہ لوگ جنہیں اللہ نے مکمل قرآن حفظ کرنے کی توفیق دی تھی، ان کی عزت افزائی کے لیے خاص اور ناقابل فراموش طریقے اپنائے جاتے تھے۔ انہیں پورے گاؤں میں گھمایا جاتا تاکہ لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو اور سب انہیں جان سکیں۔ "میرے پاس اس دور کی بہت سی یادیں ہیں جو آج بھی تازہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، اس ملاقات میں غیرملکی طلبہ نے شیخ الازہر کے سامنے قرآن کی تلاوت کی۔ آخر میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مرکز غیرملکی طلبہ کے مسائل حل کرنے اور ان کی دیکھ بھال کے ذریعے ایسے مبلغ تیار کرنے کی کوشش کرتا ہے جو غلط افکار کا مقابلہ کر سکیں اور اپنے ملکوں میں الازہر کے بہترین سفیر بنیں۔/
4299183