ایکنا نیوز، الجزیرہ ویب سائٹ پر فادی الزعتری کے قلم سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اسرائیلی جامعات کے فلسطینیوں کے قتل عام اور ان پر تشدد میں کردار کو اجاگر کیا گیا ہے۔
جب فلسطین میں بے گناہوں کا خون بہایا جا رہا ہے تو ایسی خبریں، جیسے سنہ 2023 میں ادب کے شعبے میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی فلسطینی طالبہ شیما اکرم صیدم کی شہادت، نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ ان کی شہادت کوئی حادثہ نہیں، بلکہ ایک منظم منصوبے کا نتیجہ ہے جس میں صہیونی ادارے، خاص طور پر اسرائیلی جامعات، شریک ہیں۔
یہ جامعات صرف انجینئر یا ماہرین حیاتیات ہی پیدا نہیں کرتیں بلکہ ایسی ذہنیت بھی تیار کرتی ہیں جو سیکیورٹی و فوجی مقاصد کے تحت فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے کے قابل ہو۔ نصاب، تحقیقاتی مراکز اور فوج، شاباک (اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی) و ہتھیار ساز کمپنیوں کے ساتھ قریبی تعلق کے ذریعے یہ ادارے ’’قاتل کی شناخت‘‘ تراشتے ہیں۔
جامعات بطور ’’آزمایشگاہ قبضہ‘‘
مایا ویند، جو یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی محقق اور اسرائیلی نژاد یہودی ہیں، نے اپنی کتاب میں براہِ راست شواہد پیش کیے ہیں کہ اسرائیلی جامعات کس طرح قتل و غارت کے نظام سے جڑی ہیں۔ انہوں نے سرکاری دستاویزات، آرکائیوز اور فلسطینی و یہودی اساتذہ و طلبہ سے انٹرویوز کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ یہ جامعات ’’آزمایشگاہِ تسلط‘‘ میں بدل چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ادارے خودمختار علمی مراکز نہیں بلکہ اسرائیلی ریاستی تشدد، اپارتھائیڈ اور قبضے کے بنیادی ستون ہیں۔ صرف فکری نہیں بلکہ عملی سطح پر بھی یہ ادارے نوآبادیاتی منصوبوں کا حصہ ہیں۔ یہاں تک کہ طلبہ بھی فوجی سرگرمیوں میں شریک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جنگ 1948 کے دوران عبرانی یونیورسٹی کو اسلحے کے گودام اور فوجی تربیت کے مرکز کے طور پر استعمال کیا گیا۔
فلسطینی طلبہ پر دباؤ
اسرائیلی جامعات صہیونی فکری بالادستی کے تحت نکبت، استعمار یا فلسطینی حقوق جیسے موضوعات پر کسی بھی بحث کو روکتی ہیں۔ ان اداروں میں فلسطینی طلبہ کو درج ذیل مشکلات کا سامنا رہتا ہے:
مسلسل نگرانی، شعوری طور پر حاشیے پر دھکیلنا اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی طرف سے طلبی و بازپرس
آزادی اظہار پر پابندیاں اور اور اکثر صورتوں میں: گرفتاری یا قتل
یوں فلسطینیوں کے لیے کوئی حقیقی علمی آزادی باقی نہیں رہتی۔ جامعات ان کے مطالبات اور جدوجہد کو مسخ کرنے کے آلے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
اسرائیلی جامعات اشغال اور اپارتھائیڈ سے متعلق تنقیدی تحقیقات پر پابندی لگاتی ہیں، اور فکری آزادی کو کچلتی ہیں۔
علمی آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر ممکن نہیں
مایا ویند کی کتاب میں چھ ابواب (دو حصوں میں تقسیم) کے ساتھ مقدمہ، نتیجہ اور آخر میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے پروفیسر رابن ڈی. جی. کیلی کا اختتامی نوٹ شامل ہے۔
پروفیسر کیلی لکھتے ہیں: ان جامعات کا بائیکاٹ صرف ایک علمی مؤقف نہیں، بلکہ ایک اخلاقی و سیاسی ضرورت ہے تاکہ اشغال اور اپارتھائیڈ کا خاتمہ ہو۔ ایسی فضا میں علمی آزادی ممکن نہیں جو قتل، بے دخلی اور امتیاز پر قائم ہو۔ اسرائیلی جامعات صہیونی ریاست کے سب سے نمایاں اوزار ہیں۔/
4299663