ایکنانیوز- سحر ٹی وی- یمن کی اعلی کونسل کے رکن عبدالرحمان مختار نے کہا کہ سعودی عرب نے یمن میں دو علاقوں کو ایسے ہتھیاروں کا نشانہ بنایا ہے جو مشرق وسطی میں صرف صہیونی حکومت کے پاس ہیں اور سعودی عرب کے ایک سابق اعلی عہدیدار نے اپنے دورہ تل ابیب کے موقع پر صہیونی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو سے ملاقات میں اس طرح کے ہتھیار سعودی عرب کو دینے پر ان کی قدردانی کی-
سعودی عرب اور اس کے اتحادی رواں سال کے چھبیس مارچ سے یمن کے مستعفی اور مفرور صدر اور حکومت کو اقتدار میں واپس لانے کے بہانے اور یمن پر اپنا تسلط جاری رکھنے کے لئے اس ملک پر حملہ کر رہے ہیں-
سعودی عرب کا ایک جرم یمن پر فضائی ، بحری اور بری حملوں میں صیہونی حکومت کوبراہ راست طور پر شامل کرنا ہے- ابھی کچھ دنوں پہلے یمن کی عوامی کمیٹیوں اور مشترکہ فوجی کمانڈ نے اعلان کیا تھا کہ باب المندب علاقے پر سعودی اتحاد کے فضائی، بحری اور بری حملے میں صیہونی حکومت کی براہ راست شرکت اس کے لئے واضح ہو چکی ہے-
یہ ایسے عالم میں ہے کہ اسرائیل کے چیف آف آرمی اسٹاف نے ابھی حال ہی میں مشرق وسطی کے سلسلے میں واشنگٹن کی پالیسیوں سے متعلق انسٹیٹیوٹ وینیپ (WINEP) میں کہا کہ اس وقت اسرائیلی فوج کی نگاہیں باب المندب پر لگی ہوئی ہیں- آبنائے باب المندب، ایشیاء سے یورپ و امریکہ کے لئے اصلی بحری راستہ ہے اور عالمی معیشت بالخصوص صیہونی حکومت اور بڑی طاقتوں کے لئےنہایت اہمیت کا حامل ہے-
دوسری جانب یمن میں سعودی عرب کی نیابتی جنگ کو علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے بڑے سازشی منصوبوں کے تناظر میں تلاش کرنا چاہئے- اس تناظر میں جنگ یمن، اس ملک کو اور اس کے بعد عراق، شام، سعودی عرب اور مصر کو تقسیم کرنے کے لئے امریکہ اور صیہونی حکومت کے فتنہ انگیز منصوبوں کا آغاز ہے-
علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کے منصوبے اور اقدامات، مشرق وسطی کے علاقے میں ان کی حرص و طمع اور ناپاک اہداف کو پہلے سے زیادہ آشکار کر رہے ہیں-
امریکی اقدامات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ واشنگٹن اب بھی مشرق وسطی میں اپنے تسلط پسندانہ منصوبوں کا جائزہ لینے اور عظیم مشرق وسطی یا جدید مشرق وسطی کے نام سے موسوم منصوبوں کو احیاء کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس منصوبے کا ایک اصلی جزء، صیہونی حکومت کے نیل سے فرات تک کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے علاقے کے ممالک کی مزید تقسیم ہے-
عظیم مشرق وسطی کے نام سے موسوم منصوبے کے سلسلے میں سامنے آنے والے نقشوں کے مطابق یمن اس منصوبے میں شامل ممالک میں سے ایک ہے- امریکی حکام ، یمن میں خود غرضی پر مبنی اپنے اہداف کے حصول کے لئے ہر موقع اور ہتھکنڈے کو استعمال کرتے ہیں اور ان حالات میں آل سعود، علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی نیابتی جنگ کے لئے بہترین آلہ کار شمار ہوتی ہے-
یہ ایسی حالت میں ہے کہ عرب ممالک یمن کی حمایت اور بحران کے حل کے لئے اس ملک کی مدد کے بجائےآل سعود کی جنگ بھڑکانے کی پالیسی کا ساتھ دے کر علاقے کے ممالک کو کمزور کرنے پر مبنی امریکی و صہیونی منصوبے پر عمل درآمد میں شامل ہو گئے ہیں-
علاقے میں دہشت گردانہ واقعات اور آل سعود کے دشمنانہ اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ صرف وہی ممالک آل سعود کے وہابیوں کی سازشوں اور تکفیری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں جن کے امریکہ اور اسرائیل سے اختلافات ہیں اور اس تناظر میں علاقے کے ممالک کو ان سازشوں کے حوالے سے مزید ہوشیاری سے کام لینا ہوگا جو مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہیں-