ایکنا نیوز- اچھی تلاوت کے لیے بزرگوں نے کافی ہدایات اور طریقے بتائے ہیں اور بہتر ہے کہ انسان قرآن مجید کی ایسی تلاوت کریں جس کا حکم خود قرآن نے دیا ہے
«فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ»(مزمل، 20)،
کیونکہ تلاوت خود وسیلہ ہے تکامل یا کمال کی طرف لیجانے کی، مقصد یہ ہے کہ انسان مفاہیم قرآن سے انس پیدا کریں اور قرآنی معارف انکے دل میں رچ بس جائے اور انسان عملی زندگی میں ان مفاہیم پر عمل کریں۔
امام علی(ع) فرماتے ہیں: کتاب خدا کو سیکھیں کیونکہ یہ بہترین گفتار اور بلیغ ترین موعظہ ہے اور کوشش کریں کہ اس میں سوچ بوجھ حاصل کریں کیونکہ قرآن دلوں کی بہار ہے جو دل کو زندہ کرتا ہے۔
جس طرح خزاں میں چیزیں مرجاتی ہیں انسان کا دل بھی قرآن سے قبل ایک طرح سے مردہ ہوتا ہے اور قرآن سن کر وہ زندہ ہوتا ہے۔
کہا گیا ہے کہ قرآن جو بهترین گفتار ہے اسکو اچھی آواز سے تلاوت کریں مراد ایسی آواز جو عالم غیب کی طرف متوجہ کرے اور صرف ظاہری خوبصورتی تک محدود نہ ہو۔
البته یہ بھی اچھی بات ہے کہ اچھی آواز ہو تاہم بعض اولیا جب سادہ انداز میں بھی ترترتیل سے قرآن پڑھتے ہیں تو وہ دلوں میں اتر جاتے ہیں۔
تلاوت میں ظاہری جوش و خروش معنوی تبدیلی کا باعث ہو
مجالس قرائت قرآن میں بعض اوقات ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تاہم پڑھنے والے کو اس وقت معنوی حالت کو درک کرنا ہوگا اور روایات میں ہے کہ قرآن کو حزن و اندوہ کے ساتھ تلاوت کریں کیونکہ حزن انسان کو فکر کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
رسول خدا(ص) فرماتے ہیں: «إِنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ بِالْحُزْنِ؛ قرآن حزن کے ہمراہ نازل ہوا ہے»، یعنی قرآن تبدیلی کے لیے اترا ہے کہ انسان کو انکی حقیقت اور خدا کی طرف متوجہ کرے۔ ایسا حزن جیسے انسان پورا دن کام کرتا ہے مگر انکو معلوم نہیں ہوتا کہ انکے کام کا نتیجہ کیا ہے اور اس سے حزن و ملال پیدا ہوتا ہے۔ حزن واقعی یعنی وہ فکر لاحق ہونا کہ انسان فکر کرے کہ اسکی حقیقت کیا ہے اور کہاں اسکا اختتام ہے اور یہ قرآن ہمیں بتاتا ہے۔