ایکنا نیوز- ایک خاص انداز تفسیر جو شیعی تفاسیر میں منفرد ہے وہ سید رضی کی تفسیر«تلخیص البیان فی مجازات القرآن» ہے. سیدرضی نے اپنی تفسیر میں اپنی دریائے علم کا استفادہ کرتے ہویے قرآن استعاروں پر کام کیا ہے، انکی ایک جلد پر مبنی تفسیر عربی زبان میں آیات کی تفسیر اور استعارہ و کنایوں پر روشنی ڈالی گیی ہے۔
یہ چوتھی صدی اہم ترین علمی کتابوں میں شمار کی جاتی ہے جس میں مجاز، کنایہ، استعارہ اور دیگر باریک ادبی قرآنی نکات کو ترتیب کے ساتھ وضاحت کی گیی ہے اور قرآن کے فصاحت و بلاغت کے معجزے کو واضح کیا گیا ہے۔
بَلاغَت، یعنی خوبصورتی کے ساتھ انداز بیان، اور مطلب تک «مخاطب» پیغام کو پہنچانا ہوتا ہے۔
سیدرضی کون تھے؟
محمد بن حسین بن موسی جو سید رضی (۳۵۹ - ۴۰۶قمری: 969-1015 میلادی) کے نام سے معروف تھے شیعه عالم تھے جو معروف عالم سید مرتضی کے بھائی ہے. سید رضی نے اہم عہدوں جیسے قاضی یا چیف جسٹس اور امیر الحاج (سرپرست زائرین کعبہ و امور حج) پر کام کیے اور حکومت آل بویه اس وقت کے ایران میں اہم شخصیت تھے، انکی شاعری کا ایک دیوان موجود ہے. سید رضی آثاری کے علم کلام و تفسیر کے علاوہ انکا شاہکار کارنامہ نهجالبلاغه کی تدوین و جمع آوری ہے. انہوں نے دارالعلم قایم کیا اور کہا جاتا ہے کہ وہ پہلا رسمی مذہبی مدرسہ تھا.
انہوں نے محمد طبری مالکی، ابوعبدالله جرجانی(متوفی ۳۹۷ قمری، 1096 میلادی)، حنفی فقیه، قاضی عبدالجبار معتزلی اور معروف اہل سنت عالم اکفانی قاضی (متوفی ۴۰۵قمری، 1014 میلادی) سے کسب فیض کیا۔ فقه و اصولِ سید رضی کا علم اہل سنت سے لینے کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بطور قاضی انکا خیال تھا کہ تمام فقہ سے آگاہی ضروری ہے.
تفسیر «تلخیص البیان» کی خصوصیات
قرآئات سبعہ کا ذکر، معانی اور الفاظ کی ترکیب پر بحث، اختلافی مسایل پر وضاحت اور احادیث سے استفادہ اس تفسیر کی خصوصیات میں شامل ہیں۔
کتاب سید رضی کی تفسیر میں پہلی چیز سوره بقره کی آیت سات ہے جسمیں کہا گیا ہے: «خَتَمَ الله عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ». یہ آیت منافقین بارے میں ہے کہ انکے آنکھوں اور دلوں پر پردہ ہے اور یہ استعارہ ہے کہ منافقین دیکھتے ہیں مگر عبرت نہ لینے کی وجہ سے خدا نے انکی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔
اختتام میں آیت اول تا سوم سوره انشراح ہیں جہاں کہا جاتا ہے: «أَ لَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ، وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ، اَلَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ؛
کیا تمھارا سینہ نہیں کھولا اور بارگراں تم سے نہ اٹھایا؟ سید رضی تیسری آیت بارے کہتا ہے کہ یہ تعبیر«اَلَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ» مَجاز و استعاره ہےکیونکہ رسول گرامی(ص) معصوم ہے اور گناہ کا مرتکب نہیں ہوتے، اور لفظ «وزر» کا مطلب وہی سختی اور رسول گرامی کو تکلیف دینا ہے جو تبلیغ کی راہ میں انکو اٹھانا پڑا۔
اس کتاب سے بعد کے مفسرین نے استفادہ کیا ہے اور قطب راوندى، حویزى و دیگر مفسرین نے انکے تفسیر بیانی سے اپنی کتب میں استفادہ کیا ہے۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ سید رضى کے زمانے میں ظاہریہ اور سلفیہ افکار کی کثرت تھی جو عام طور پر مجاز اور استعارے میں قرآنی نکات کے منکر تھے اور اس حوالے سے سید رضى کی کتاب «مَجازات القرآن» انکے لیے مستحکم جواب تھی۔/