ایکنا نیوز- کبھی کبھار موقع ملتا ہے کہ انسان گناہ کرے اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا اور اس وقت وہ انسان اس گناہ کو کرسکنے کے باوجود انجام نہیں دیتا تو یہ قابل قدر امر شمار ہوتا ہے اور خدا کے ہاں اس کا بہترین اجر ہوتا ہے۔
خدا سے متعلق انسان جب اچھے کام کا ارادہ کرتا ہے حتی انجام بھی نہیں دیتا تو خدا اسکو اجر دیتا ہے کیونکہ اسکا دل ایسا چاہتا ہے مگر برائی کا ارادہ کرے اور انجام نہ دے تو اس کا گناہ نہیں لکھا جاتا۔
انسان کے گناہوں کی دو قسم ہوتی ہیں ایک گناہ وہ ہے جو انجام دینے کے بعد ختم ہوتا ہے تاہم ایسے گناہ بھی ہوتے ہیں جنکے اثرات تا دیر یا دائمی ہوتے ہیں حتی جب انسان سوتا ہے یا عبادت کرتا ہے تب بھی اسکا اثر باقی ہوتا ہے اور ممکن ہے اس کا اثر قیامت تک باقی رہے۔
جس طرح سے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: «نَكْتُبُ ما قَدَّمُوا وَ آثارَهُمْ وَ كُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْناهُ فِي إِمامٍ مُبِينٍ: ہم مردوں کو لوٹا دیتے ہیں اور انکے کیے کو ثبت کرتے ہیں اور وہ لوح محفوظ میں باقی رہتے ہیں اور خدا سبکو گنتا ہے» (یس/ 12).
اس طرح کے گناہوں کے تین اقسام ہیں: انجام شدہ گناہ (فعلی)، ترک شده (ترک کیا گیا) اور قلبی (دلی).
انجام شدہ (فعلی) وہ گناہ ہے جس کو انجام دیا ہے اور اس کا اثر اسکے لیے اور دوسروں کے لیے باقی ہے جیسے اس نے ایک مکان کو زبردستی قبضہ کرکے تسلط میں لیا ہے اور اس سے استفادہ کرتا ہے۔
اس کا گناہ باقی ہے اور حتی وہ اگر مر بھی جائے اور انکی اولاد اس گھر کا استعمال کرے تو اس کا اثر باقی و جاری ہے۔
دوسری قسم ترک شدہ گناہ ہے جس سے انسان کو توبہ کرنا چاہیے تاہم اگر انسان اس سے توبہ میں تاخیر کرتا ہے تو اس کے لیے گناہ لکھا جاتا ہے۔
تیسری قسم گناہوں نہی از منکر والے گناہ ہیں یعنی اگر انسان دوسروں کو گناہ کرتے دیکھے تو انکو روکنا یا خبردار کرنا چاہیے وگرنہ انکے ذمے گناہ لکھا جائے گا۔
«كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ ما كانُوا يَفْعَلُونَ: برے کاموں سے ایکدوسرے کو نہیں روکتے تھے کیا برا کام کرتے تھے » (مائده/ 79).