صلح امام حسن(ع)؛ قیام حسینی کا مقدمہ ساز

IQNA

نوٹ؛

صلح امام حسن(ع)؛ قیام حسینی کا مقدمہ ساز

5:03 - August 23, 2025
خبر کا کوڈ: 3519032
ایکنا: امام حسن(ع)، جو کہ واقعات سے آگاہ تھے، یہ جانتے تھے کہ ان کے پیروکار بنی امیہ کی وحشیانہ کارروائیوں کا شکار ہوں گے، لہذا انہوں نے صلح کو انہوں نے حکمت عملی کے طور پر تسلیم کیا۔

امام حسن مجتبی(ع)، جو کہ شیعیان کا دوسرا امام ہیں، امام علی(ع) اور حضرت فاطمہ(س) کے پہلے بیٹے اور پیغمبر اسلام(ص) کے پہلے پوتے ہیں، ۱۵ رمضان سال ۳ ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوئے اور ۲۸ صفر سال ۵۰ ہجری میں ۴۷ سال کی عمر میں شہید ہوئے۔

امام حسن(ع) اپنے والد، امام علی(ع) کے بعد اہل بیت، بچوں اور اصحاب کی رہنمائی کے ذمہ دار تھے۔ امام علی(ع) نے انہیں اس بارے میں وصیت کی تھی کہ وہ وقف اور صدقہ جات کی نگرانی کریں اور اس معاملے کے لیے ایک مشہور عہدنامہ بھی لکھا، جسے بڑے دانشوروں نے نقل کیا ہے اور بہت سے فقہاء اور مفکرین نے اس کے حکموں سے دین و دنیا میں فائدہ اٹھایا۔

۴۱ ہجری میں امام حسن(ع) نے معاویہ سے صلح کے بعد کوفہ چھوڑا۔ یہ صلح خونریزی روکنے اور مسلمانوں کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے کی گئی تھی، جس پر لوگوں کی طرف سے مختلف ردعمل سامنے آئے۔ یہ واقعہ شیعہ تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے اور امام حسن(ع) کے لوگوں سے مایوسی اور کوفہ کے عوام کے طرز عمل کو ظاہر کرتا ہے۔

عرب تجزیہ کار باسمہ دولانی نے امام حسن(ع) کی صلح اور وطن میں ان کی تنہائی پر ایک یادداشت میں کہا ہے کہ یہ صلح حسین(ع) کے انقلاب کی بنیاد ثابت ہوئی، جو ہمیشہ کے لیے زندہ رہنے والی ہے۔

امام حسن(ع) کی زندگی علم، جهاد، ظلم کے خلاف جدوجہد اور اسلام کی حفاظت سے بھرپور تھی۔ وہ اپنے سماج اور اپنے لوگوں کے ساتھ سختیاں برداشت کرتے رہے اور کئی بار اذیتوں کا سامنا کیا۔

امام حسن(ع) کے پیروکار اور یاران انہیں حاکم سے صلح کرنے پر تنقید کرتے تھے اور ان کے مقاصد سے آگاہ نہیں تھے، اس لیے امام(ع) اپنے پیروکاروں میں غربت کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے بار بار اپنے پیروکاروں کو اس صلح کے پیچھے چھپے مقاصد سمجھانے کی کوشش کی۔

امام حسن(ع) نے ایک خطبہ میں فرمایا کہ خلیفہ نے میرے حق پر اختلاف کیا، میں نے امت کی بھلإئی اور فتنے کا خاتمہ کرنے کو ترجیح دی۔ آپ نے مجھ سے بیعت کی تھی کہ جنہوں نے مجھ سے صلح کی، آپ ان سے صلح کریں گے اور جو مجھ سے لڑیں گے، ان سے لڑیں گے، تو میں نے فیصلہ کیا کہ  صلح کروں اور جنگ کو ختم کروں۔ میں نے اس سے بیعت کی اور یہ سمجھا کہ مسلمانوں کا خون بچانا اس کے بہانے سے بہتر ہے۔ میں صرف آپ کی بھلإئی چاہتا ہوں، اگرچہ یہ آپ کے لیے ایک آزمائش ہو سکتا ہے۔

امام حسن(ع) کی شخصیت میں بے شمار نیکیاں اور فضائل تھے، وہ ایک دانشمند، بردبار، بخشش کرنے والے، شجاع، اور فروتن امام تھے۔ ان کی زندگی میں حکمت، نصیحت، قیمتی کلمات، اور خطبے بھرے ہوئے ہیں۔ وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر توجہ دیتے تھے جو ایک شخص کو روزمرہ کی زندگی میں پیش آ سکتی ہے۔

امام حسن(ع) فقرا اور نیازمندوں کے ساتھ بہت نرمی سے پیش آتے تھے، وہ کبھی بھی لوگوں میں تفریق نہیں کرتے تھے، کیونکہ ان کے نزدیک تمام انسان خدا کی مخلوق تھے اور انہیں عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ وہ کسی کی دعوت کو رد نہیں کرتے تھے، بلکہ محبت اور دلچسپی کے ساتھ اسے قبول کرتے تھے۔

امام حسن(ع) کی سخاوت بھی مشہور تھی، انہیں "کریم اہل بیت(ع)" کہا جاتا تھا۔ ایک بار ایک شخص نے امام حسن(ع) سے مدد مانگی، امام نے اسے پچاس ہزار درہم اور پانچ سو دینار دیے اور کہا کہ "حمالی لے آؤ تاکہ یہ سامان تمہارے لیے لے جائے۔"

شجاعت کے لحاظ سے بھی امام حسن(ع) کی شخصیت بے مثال تھی، وہ اپنے والد امام علی(ع) کے ساتھ جنگ جمل اور صفین میں شریک ہوئے تھے۔ ان کی شجاعت اس وقت بھی واضح ہوئی جب انہوں نے معاویہ کی جھوٹی باتوں کا پردہ چاک کیا اور کہا: اگر میں ایک سال تک کھڑا رہوں اور وہ سب بیان کروں جو اللہ نے ہمیں قرآن میں دیا ہے اور پیغمبر(ص) نے ہمیں عطا کیا ہے، تو بھی میں اسے مکمل نہیں کر سکوں گا۔

امام حسن(ع) کا سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ وہ اپنے وطن میں بھی غریب ہو گئے تھے۔ وہ کوفہ اور اس کے لوگوں کی طرف سے اذیتیں جھیل رہے تھے۔ جب امام حسن(ع) سے سوال کیا گیا کہ آپ نے وہ کیا کیا جس کی وجہ سے آپ نے خلیفہ سے صلح کی؟" تو امام حسن(ع) نے جواب دیا: "میں دنیا سے بیزار ہو گیا اور میں نے دیکھا کہ کوفہ کے لوگ بے وفا ہیں، ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، وہ اپنی اچھائی اور برائی میں بھی ثابت قدم نہیں ہیں۔

امام حسن(ع) کی صلح کے بارے میں ان کے پیروکاروں میں بے شمار شکایات تھیں کیونکہ وہ اس کے مقصد کو نہیں سمجھ سکے۔ امام حسن(ع) نے اس صلح کے حقیقی مقصد کو سمجھا اور انہوں نے یہ جانا کہ حاکم سے جنگ شیعوں کے لیے مصیبت کا باعث بنے گی۔ امام حسن(ع) نے لوگوں کی حقیقت کو جانا، اور ان کے لیے یہ فیصلہ کرنا کہ ان کے خون کو بچانا بہتر ہے، حالانکہ لوگوں نے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھا۔

کافی لوگ امام حسن(ع) کے ساتھ تھے، لیکن جیسے ہی امام حسن(ع) کے ارد گرد کے لوگ انہیں چھوڑ کر حاکم کے ساتھ مل گئے، امام حسن(ع) کو زیادہ تر لوگوں نے اکیلا چھوڑ دیا۔ صرف چند وفادار پیروکار اور دوست ہی امام کے ساتھ رہے۔

خلیفہ کا آخری مقصد لوگوں پر حکومت اور تسلط حاصل کرنا تھا۔ اس نے خود کہا: خدا کی قسم، میں نے تم سے جنگ نہیں کی تاکہ تم نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج ادا کرو یا زکات دو۔ لیکن تم یہ سب کرتے ہو۔ میں تم سے صرف اس لیے لڑا ہوں تاکہ تم پر حکومت کروں اور خدا نے یہ مجھے دے دیا ہے، اور تم اس عمل سے نفرت کرتے ہو۔ حاکم کا مقصد نماز کی ترویج، روزہ رکھنے کی دعوت، لوگوں کو اپنی دولت پاک کرنے کی ترغیب دینا یا حج کے مناسک انجام دینا نہیں تھا، بلکہ اس کا واحد مقصد طاقت اور تسلط حاصل کرنا تھا۔

اس کے دور میں اور اس کے بعد یزید کے دور میں، اور پھر بنی امیہ کے دور میں، لوگوں نے دہشت گردی، قتل و خونریزی کا بدترین منظر دیکھا۔ پیغمبر اسلام(ص) کے اہل بیت(ع) کے چاہنے والوں نے اس حکومتی دور میں بے شمار مشکلات برداشت کیں۔ وہ قتل کیے گئے، ان کا خون بہایا گیا اور وہ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔

امام حسن(ع) جو کہ تمام واقعات سے آگاہ تھے، جانتے تھے کہ ان کے پیروکار بنی امیہ کی وحشیانہ کارروائیوں کا شکار ہوں گے، لہذا انہوں نے یہ صلح اسلام کے مفاد میں اور اپنے پیروکاروں کے مفاد میں قبول کی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس ظلم کو برداشت کریں گے، حالانکہ وہ  جنگ کرنے کے لیے کسی طور پر کمزور نہیں تھے۔ ان کے پاس نہ شجاعت، نہ بہادری اور نہ ہی جنگ میں شریک ہونے کی جرات کی کمی تھی، مگر وہ جو چیز کم رکھتے تھے وہ اپنے پیروکاروں کا خلوص اور ان کی حمایت تھی۔ افسوس کہ پیروکاروں نے انہیں سب سے زیادہ دشوار وقت میں تنہا چھوڑ دیا۔

آخرکار یہ کہنا ضروری ہے کہ اگر امام حسن(ع) کے پاس مکمل فوج، وسائل اور جنگوں میں ثابت قدمی ہوتی تو وہ حاکم کا مقابلہ کرتے اور اسے شکست دیتے۔ تاہم، خدا کی حکمت یہ چاہتی تھی کہ امام حسن(ع) اس وقت میں رہیں جب اصحاب اور پیروکار ان کے ساتھ وفادار نہیں رہے تھے، اور جب وہ اپنے وطن میں غریب تھے۔ خدا کی حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے وقت میں نہ صرف خود کو بلکہ اپنے برادر امام حسین(ع) کے قیام کے لیے راہ ہموار کریں، جو تاریخ کا ایک عظیم انقلاب تھا۔ امام حسین(ع) نے اس انقلاب میں اپنے اصحاب اور اہل خانہ کے ساتھ شہادت پائی۔ اگر امام حسن(ع) نے اس انقلاب کی تیاری نہ کی ہوتی تو وہ کامیاب نہ ہو پاتا۔

حسینی انقلاب کی کامیابی اور اس کی تاریخ میں جاودانگی، امام حسن(ع) کی صبر، مظلومیت اور ان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے، اور اسی طرح امام حسین(ع) کی شہادت تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔/

 

4300905

ٹیگس: امام حسن ، صلح ، جنگ ، قیام
نظرات بینندگان
captcha