ایکنا نیوز- خیانت ایک رویہ ہے جس کی وجہ سے معاشرے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں اور اسلامی تعلیمات میں اس کی شدید مذمت کی گیی ہے۔
خیانت ایک طرح سے امانت میں چوری ہے جس سے عہد و وعدہ ٹوٹ جاتا ہے، امانت کبھی مادی یا فیزیکلی کوئی چیز ہوتی ہے تاہم عھد و پیمان بھی ایک طرح سے امانت ہے اسی لیے جب کوئی شادی شدہ کسی اور کی زندگی میں غیرقانونی داخل ہوتا ہے تو اس کو خائن کہا جاتا ہے۔
خیانت کی جڑوں میں سے ایک نفس امارہ پر توجہ ہے، نفس امارہ ایک حالت کا نام ہے جسمیں انسان عقل کی پیروی نہیں کرتا اور اسی لیے گناہ و خطا کا مرتکب ہوتا ہے نفس امارہ انسان کی پست ترین حالت کا نام ہے جو شدت سے گناہ کی سمت کھینچتا ہے۔
حضرت یوسف(ع) زلیخا کے رویے کو نفس اماره کا نتیجہ قرار دیتا ہے: «وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّي إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَحِيمٌ ؛ میں گناہ سے خود کو مبرا نہیں سمجھتا؛ کیونکہ باغی نفس گناہ کی دعوت دیتا ہے مگر پروردگار رحم فرمائے؛ کیونکہ خدا بخشنے والا مہربان ہے»(یوسف: 53).
خیانت کی اور ایک جڑ، شِرك و اور خدا پر ایمان نہ رکھنا اور رازق نہ ہونے پر ہے. کمزور ایمان رکھنے والے کبھی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں. وہ سمجھتے ہیں کہ خیانت نہ کریں گے تو وہ پیچھے رہیں گے۔
خیانت کی قرآن میں مختلف اقسام ہیں:
رسول گرامی اسلام «ص» اس غیر اخلاقی صفت بارے فرماتا ہے: «ارْبَعٌ لا تَدْخُلُ بَيْتاً واحِدَةٌ مِنْهُنَّ الَّا خَرِبَ وَ لَمْ يَعْمُرْ بِالْبَرَكَةِ الْخِيانَةُ وَ السِّرِقَةُ وَ شُرْبُ الْخَمْرِ وَ الزِّنا؛
چار چیزیں ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک کسی گھر میں داخل ہوجائے تو اس میں برکت ختم ہوجاتی ہے، خیانت، چوری، شراب اور زنا۔
جس معاشرے میں ان چیزوں میں سے کوئی ایک یا سب آجائے تو یہی امر واقع ہوگا اور معاشرے بربادی سے دوچار ہوگا۔/
* کتاب «اخلاق در قرآن» بقلم آیتاللهالعظمی مکارم شیرزای سے اقتباس