ایکنا نیوز- انسانی زندگی میں ایک اہم اصول تربیت کا پہلو ہے یعنی انسان مختلف حالتوں میں ایک ایسا رویہ رکھے تاکہ انکی صلاحیتوں کو پنپنے کا موقع مل سکے اور اسکو کمال کی طرف جاری رکھے سکے، اسی حوالے سے اچھی تربیت کو خدا نے والدین کی اہم ذمہ داریوں میں سے شمار کیا ہے۔
خدا جو والدین کی نسبت بہت زیادہ انسان سے محبت کرنے والا ہے وہ ایک پریکٹکلی اصول پیش کرتا ہے تاکہ انسان کو لائحہ عمل دیکھ سکے۔
آیت 4 سوره فصلت میں ہم پڑھتے ہیں: «بَشيراً وَ نَذيراً فَأَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لا يَسْمَعُون ؛ بشارت دینے والا، آگاہ کرنے والا اور خبردار کرنے والا ہے. لیکن اکثر روگرانی کرتے ہیں اور نہیں سنتے.» (فصلت:4)
حوصلہ افزائی اور ڈرانا دو پر کی مانند ہیں جو ایکدوسرے کے بغیر ناقص ہے اور قابل پرواز نہیں، اگر زیادہ حوصلہ افزائی ہو اور انسان خطرے محسوس ہی نہ کرے تو وہ خوشی میں افراط سے کام لے گا یہانتک کہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اگر بہت زیادہ ڈرایا جائے تو وہ مایوس ہوجاتا ہے اور حتی خود سے بھی خوفزدہ ہوتا ہے اور حرکت سے رک جاتا ہے۔
قرآن اس عمل سے خوب استفادہ کرتا ہے اور مومنین کی حوصلہ افزائی کرتا اور کفار کو انک اعمال سے ڈراتا ہے۔
قرآن کے مطابق پیغمبر بھی اس روش سے استفادہ کرتے ہیں اور بقول قرآن کریم: «إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقّ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا ؛ (اے رسول) ہم نے تمھیں حق کے ساتھ، بشارت دینے اور ڈرانے والا (انسانوں کو) بنا کر بھیجا ہے.» (بقره :119) چونکہ قرآن بھی تربیت کرنے والا ہے اور رسول گرامی بھی مربی ہے، یہ اصول دونوں کے بارے میں بیان ہوا ہے۔
حوصلہ افزائی اور ڈرانے کی مثال:
خدا نے اس آیت میں کفار اور منافقین کو جہنم کی آگ کا وعدہ دیا ہے اور یہ ایک حتمی فیصلہ ہے جس کی مخالفت ممکن نہیں، اور یہ ظلم نہیں بلکہ خدا کے عدل کی نشانی ہے اور وہ اس عذاب کے حقدار ہیں۔
جب مومنین ان آیات کو پڑھتے ہیں تو زور و شوق کے ساتھ اچھے کاموں کی طرف جاتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان افراد میں سے قرار پائے۔/