سوسن حسن عبداللہ الفضلی، یمنی مصنفہ اور محقق، اور صنعا میں ادارہ "نورالقرآن" کی ڈائریکٹر، نے ایکنا سے بات کرتے ہوئے 7 اکتوبر کے موقع پر، "طوفان الاقصی" آپریشن کی پہلی سالگرہ کے حوالے سے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آپریشن، جو ایک سال سے جاری ہے، مسجد الاقصی کو یہودی صیہونی ظلم اور استبداد سے آزاد کرانے کا دروازہ ہے اور یہ پوری خطے کو صیہونی ظلم، استبداد اور تسلط سے آزاد کرے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ "طوفان الاقصی" نے خطے میں تاریخی اثرات اور اسٹریٹیجک نتائج پیدا کیے ہیں، اور جو سیاست مزاحمتی محور نے 7 اکتوبر کے بعد اپنائی، وہ خطے اور پوری دنیا کا مستقبل بنانے کی پالیسی ہے، جو صیہونی ریاست کی صورت میں نمودار ہونے والے اس سرطانی غدود کے خاتمے کے ساتھ مربوط ہے۔
الفضلی نے وضاحت کی کہ "طوفان الاقصی" میں مزاحمت کی پہلی حکمت عملی فلسطین کے مقصد کو دوبارہ زندہ کرنا تھی، کیونکہ یہ مقصد تقریباً فراموش ہو رہا تھا اور عالمی سطح پر آخری موضوعات میں سے تھا۔ طوفان الاقصی نے فلسطین کے مسئلے کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا، اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں منعقد ہونے والے مظاہرے اس عظیم کامیابی اور فلسطین کے مسئلے کی بحالی کی سب سے بڑی دلیل ہیں۔
یمنی محققہ نے مزید کہا کہ حماس کے مجاہدین نے مزاحمت کے راستے میں بہت سی مشکلات برداشت کیں اور اپنے حقوق کے دفاع میں بڑی قربانیاں دیں۔ قابض صیہونی ریاست کی بربریت اور جارحیت کے باوجود، جس نے ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت اور غزہ کی پٹی کی تباہی کا سبب بنی، مجاہدین کی جنگی روح اور مزاحمت اب بھی برقرار ہے؛ کیونکہ وہ ایمان رکھتے ہیں کہ فتح اُن لوگوں کا مقدر ہے جو اپنے حق پر ثابت قدم ہیں، چاہے انہیں باطل گروہوں کے ہاتھوں شہید یا قتل کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ لبنان، یمن، عراق اور ایران کے مجاہدین کی طوفان الاقصی میں براہ راست شرکت نے حماس اور فلسطینی گروپوں کے لیے صیہونی ریاست کے ساتھ اس فیصلہ کن جنگ میں مزید ثابت قدمی کی تحریک پیدا کی۔
سوسن الفضلی نے گفتگو کے ایک اور حصے میں بتایا کہ طوفان الاقصی کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی اور سیکیورٹی صورتحال کی وجہ سے پچھلے سال کے دوران ایک چوتھائی صیہونی باشندے ملک سے ہجرت کر گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ طوفان الاقصی نے صیہونی ریاست کی جڑوں کو سخت نقصان پہنچایا اور اس کے استحکام کو متاثر کیا۔
7 اکتوبر کو فلسطینی مزاحمت کی جانب سے صیہونی ریاست اور صیہونی بستیوں پر حملے کے نتیجے میں خوف و ہراس پھیلا اور آباد کاروں کے بڑے پیمانے پر فرار کا سبب بنا، جس نے اسرائیلی فوج کی مزاحمت کے سامنے ناکامی کو بے نقاب کیا اور بہت سے صیہونیوں کو غیر محفوظ محسوس کر کے فلسطین سے باہر نکلنے پر مجبور کیا۔ یہ اس ریاست کے لیے ایک اسٹریٹیجک شکست تھی جو اپنے فوج کو ناقابل شکست سمجھتی تھی۔
الفضلی نے زور دیا کہ طوفان الاقصی کے بہادر مزاحمت کاروں نے اس درخشاں تصویر کو مٹا دیا جو مغربی میڈیا نے عرب میڈیا کی مدد سے صیہونی ریاست کے بارے میں بنائی تھی۔ یہ آپریشن خطے میں جنگ کے معادلات میں بہت اثرانداز ہوا اور اسرائیل کی ساکھ کو نہ صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ مقبوضہ علاقوں کے اندر بھی رسوا کیا۔/
4241363