ایکنا- بحرینی مصنف سعید الشہابی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے میلاد اور غزہ میں جاری صیہونی مظالم کے حوالے سے ایک مضمون میں ان مسائل پر روشنی ڈالی ہے جو ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں:
غزہ کے خلاف اسرائیلی اقدامات کے لیے "نسل کشی" کی اصطلاح کے استعمال پر کئی مباحثے جاری ہیں۔ سردیوں کے آغاز کے ساتھ، وہ بے گھر فلسطینی جو صیہونی بمباری سے اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں، کھلے آسمان تلے یا خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں، جو ان کے لیے ایک شدید چیلنج بن گیا ہے۔ طبی سہولیات کی عدم دستیابی نے ان کے مصائب میں مزید اضافہ کر دیا ہے، یہاں تک کہ ان میں سے کئی زندگی سے مایوس ہو چکے ہیں۔
یہ مناظر روزانہ ٹی وی اسکرین پر دکھائے جاتے ہیں، لیکن ان کی تکرار نے انہیں عام بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے وہ جذبات کو ابھارنے میں ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بمباری کا سلسلہ بلا تعطل جاری ہے اور قابض صیہونی قوتیں اپنے ان اقدامات کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں دیکھتیں۔
امدادی تنظیموں کی انتھک کوششوں کے باوجود، جو فلسطینی متاثرین کی مدد کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دیتی ہیں، دنیا اخلاقی اور انسانی ہمدردی سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک 160 سے زائد امدادی کارکن جو فلسطین میں خیراتی کام کر رہے تھے، قتل کیے جا چکے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ قابض فورسز مسلسل امدادی کارکنوں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
اب تک غزہ میں اسرائیلی جنگی طیاروں کی روزانہ بمباری کے نتیجے میں 45 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جب کہ اس تعداد سے تین گنا زیادہ افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بہت سے لوگ اپنی معمول کی زندگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی مطالبات کے باوجود اسرائیل جنگ روکنے سے انکار کرتا ہے اور بمباری جاری رکھنے پر اصرار کرتا ہے۔
بعض کا ماننا ہے کہ غزہ کے واقعات قانونی طور پر نسل کشی کی تعریف پر پورا اترتے ہیں۔ کئی عوامل اس بات کی تائید کرتے ہیں:
وزیر اعظم نتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ ان کا مقصد فلسطینی اور لبنانی مزاحمتی گروہوں کو ختم کرنا ہے، لیکن ہمہ جہت بمباری اور مسلسل رہنماؤں کے قتل کے باوجود یہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔ قابض اسرائیلی ریاست کی سیکولر حکومت کے باوجود، یہ اقدامات ان کے لیے ایک جعلی مذہبی مشن کی حیثیت رکھتے ہیں، جس کے تحت وہ فلسطین کو نقشہ اور انسانی یادداشت سے مٹانے اور اپنی قابض ریاست کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ نظریہ 125 سال پرانا ہے اور صیہونی ذہنوں میں گہرا پیوست ہے، جو انہیں قبضہ جاری رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی 5 دسمبر کی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل اور اس کی فوج نے نسل کشی کے کنونشن 1948 کے تحت ممنوعہ پانچ میں سے تین اعمال انجام دیے ہیں: قتل، سنگین جسمانی یا ذہنی نقصان، اور زندگی کے حالات مسلط کرنا جو کسی محفوظ گروہ کی جسمانی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
امید ہے کہ انسانیت کا ضمیر غفلت سے جاگے گا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے میلاد کے موقع پر مغربی رہنما ان کی محبت اور قربانی کی تعلیمات کو اپنائیں گے تاکہ دنیا جنگ و خونریزی سے پاک اور زیادہ محفوظ و مستحکم ہو۔ یہ بھی امید کی جاتی ہے کہ فلسطین کے مسلمان، عیسائی، اور یہودی امن و سکون سے رہ سکیں اور اس سرزمین پر دہائیوں کے تناؤ، جنگ اور قبضے کے بعد امن و استحکام لوٹ آئے۔/
4255853