ایکنا نیوز- الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کے مسلمانوں کا یہ یقین تھا کہ بابری مسجد کے انہدام اور اس کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بعد مساجد اور دیگر اسلامی عمارتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ معاملہ ہندو انتہا پسندوں کی اشتہا کو بڑھاوا دینے کا سبب بنا، جنہوں نے اب سینکڑوں مساجد اور دیگر اسلامی عمارتوں کو اسی انجام تک پہنچانے کا ہدف بنا لیا ہے۔
اندازہ لگایا گیا ہے کہ انتہا پسند ہندوؤں نے تقریباً تین ہزار مساجد اور اسلامی عمارتوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک قانون موجود ہے جو ان دعووں کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس قانون پر مؤثر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان میں 600,000 سے زائد مساجد موجود ہیں، جن میں چھوٹی مساجد سے لے کر تاریخی مساجد شامل ہیں جو مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں نے تعمیر کیں۔ یہ مساجد صرف عبادت گاہیں نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ اور ثقافت کا زندہ مظہر ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں ہندو تنظیموں کی جانب سے ان مساجد اور اسلامی عمارتوں پر دعوے تیز ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ مساجد اور عمارتیں دراصل ہندو مندروں کی جگہ پر بنائی گئی تھیں۔
یہ مسجد 1669 میں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد ان کے مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے۔
ہندو انتہا پسندوں نے اس مسجد کے انہدام کا مطالبہ کیا ہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ یہ مسجد "کریشنا جنم بھومی" (بھگوان کرشن کی جائے پیدائش) کی جگہ پر بنائی گئی ہے۔
یہ مسجد دہلی کے قطب مینار کے قریب واقع ہے اور اسے 12ویں صدی میں قطب الدین ایبک نے تعمیر کیا تھا۔ تاہم، ہندو انتہا پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ مسجد 27 ہندو مندروں کو گرا کر ان کے ملبے سے تعمیر کی گئی تھی۔ حکومت نے اس مسجد میں نماز پنجگانہ، نماز جمعہ اور عید کی نماز پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
یہ شاہجہاں کے دور کی ایک شاندار عمارت ہے، لیکن ہندو تنظیم "ہندو مہاسبھا" نے دعویٰ کیا ہے کہ مسجد کی سیڑھیوں کے نیچے ہندو دیوی دیوتاؤں کے مجسمے دفن ہیں اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ان مجسموں کو نکالنے کے لیے کھدائی کا حکم دینے کی درخواست کی ہے۔
یہ ہندوستان کی سب سے مشہور تاریخی عمارت ہے، لیکن انتہا پسند ہندو رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ تاج محل دراصل ایک قدیم ہندو مندر تھا۔
جامع مسجد دہلی کے خطیب سید احمد بخاری نے خطبہ جمعہ میں ان واقعات پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی کی خاموشی کو حالات کی سنگینی میں اضافے کا سبب قرار دیا۔
بابری مسجد جیسے انجام کا سامنا کرنے والی دیگر مساجد میں مسجد جامع، زیارت گاہ شیخ سلیم چشتی (اوتار پردیش)، مسجد اٹالا (جون پور، اوتار پردیش)، مسجد شمشی (بدایوں، اوتار پردیش) اور مانگلورو (کرناٹک) کی مساجد شامل ہیں۔/
4256696