الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، بھارتی ریاست اُترپردیش کے ضلع بریلی کے ایک گاؤں، جہاں ہندو اکثریت ہے، میں چار مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاری اس وقت ہوئی جب وہ ایک نجی ملکیت میں نمازِ جمعہ ادا کر رہے تھے۔
· الزامات اور گرفتاریاں: بھارتی پولیس کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک نجی جگہ پر نمازِ جمعہ کے لیے جمع ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، تین دیگر افراد، جن میں گاؤں کے سربراہ محمد عارف بھی شامل ہیں، کو پولیس نے مفرور قرار دے کر تلاش شروع کر دی ہے۔
· ڈرون کا استعمال: یہ گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب ایک دائیں بازو کے شدت پسند رہنما ہیمانشو پٹیل نے ڈرون سے بنی ایک ویڈیو جاری کی۔ اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ مسلمان اس زمین کو مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
· مسلمان رہائشیوں کا مؤقف: گاؤں کے مسلمانوں نے واضح کیا کہ یہ زمین ان کی ذاتی ملکیت ہے اور مسجد کے دور ہونے کی وجہ سے وہ نمازِ جمعہ گھر کی چھت پر ادا کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نہ تو کوئی مسجد تعمیر کی ہے اور نہ ہی سرکاری زمین استعمال کی ہے۔
گاؤں کے مسلمانوں نے اُترپردیش میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تعصب کی شکایت کی ہے۔ ان کے مطابق، ہندو تنظیموں کی جانب سے کسی بھی قسم کی شکایت، چاہے وہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہو، فوراً مسلمانوں کی گرفتاری کا سبب بن جاتی ہے۔
یہ واقعہ بھارت کے بعض علاقوں میں بڑھتے ہوئے مذہبی تناؤ اور مسلم اقلیت کو درپیش مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ ڈرون کے ذریعے نگرانی اور اس کے بعد پولیس کا فوری ردعمل مسلمانوں کے خلاف نظامی تعصب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔