
ایکنا نیوز؛ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اتحادِ عالمی علمائے مسلمین کی کمیٹی برائے اجتہاد و فتویٰ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ دل گرفتہ دل کے ساتھ غزہ کے عوام پر صہیونی رژیم کے وحشیانہ حملوں کی پیروی کر رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اب تک ان حملوں میں 50 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جبکہ صہیونی قابض حکومت نے حسبِ معمول فائر بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ میں نسل کشی کا منظم عمل دوبارہ شروع کر دیا ہے۔
یہ ظلم امریکی حکومت کی حمایت سے جاری ہے، جو تاحال مہلک بم اور تباہ کن ہتھیار اس رژیم کو فراہم کر رہی ہے، جبکہ عالم اسلام یا تو خاموش ہے یا مایوس کن سستی کا شکار۔
اس پس منظر میں، کمیٹی نے درج ذیل شرعی احکام اور موقف جاری کیا ہے:
- وجوبِ جہاد: صہیونی ریاست اور اس کے معاونین کے خلاف جہاد فرضِ عین ہے، سب سے پہلے فلسطینی عوام پر، پھر مصر، اردن، لبنان جیسے ہمسایہ ممالک پر، اور بعد ازاں تمام مسلم ممالک پر۔ اس میں فوجی مدد، مجاہدین کو ساز و سامان کی فراہمی، عسکری و انٹیلیجنس تعاون شامل ہے۔ دشمن کی مدد حرام: صہیونی دشمن کی کسی بھی شکل میں مدد ، جیسے اسلحہ کی فروخت، یا سمندری و زمینی راستوں سے گزرنے کی اجازت— حرام ہے۔ بلکہ لازم ہے کہ اس رژیم کا مکمل محاصرہ کیا جائے: بری، بحری و فضائی۔ ایندھن، خوراک اور ضروریات کی فراہمی حرام: جو کوئی شخص محبتِ اسرائیل یا دشمنیِ مقاومت میں ایسا کرے گا، وہ مرتد شمار ہو گا اور اس کی شرعی ولایت ساقط ہو جائے گی۔ اسلامی عسکری اتحاد کی تشکیل: قرآن کے حکم کے مطابق (الأنفال: 60)، مسلمانوں کو چاہئے کہ فوری اور متحد عسکری اتحاد تشکیل دیں تاکہ اسلامی سرزمین و عوام کا دفاع ممکن ہو۔ صہیونی ریاست سے معاہدوں پر نظرِ ثانی: جن اسلامی ممالک نے صہیونی ریاست سے معاہدے کیے ہیں، وہ ان کا جائزہ لیں اور خلاف ورزی کی صورت میں عملی اقدام کریں۔ مالی جہاد واجب: مالداروں پر فرض ہے کہ وہ زکوٰۃ سے ہٹ کر بھی مجاہدین، شہداء کے خاندانوں، اور مرابطین کی مدد میں خرچ کریں۔ تعلقات کی معمول سازی حرام: اسرائیل سے کسی بھی قسم کے تعلقات قائم کرنا حرام ہے۔ جن ممالک نے تعلقات قائم کیے ہیں، ان پر لازم ہے کہ روابط منقطع کریں۔ علماء کی ذمہ داری: علماء کو چاہیے کہ خاموشی توڑ کر جہاد کی فرضیت کا اعلان کریں اور حکومتوں و افواج پر دینی و تاریخی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے دباؤ ڈالیں۔ ہمہ جہتی بائیکاٹ: سیاسی، اقتصادی، ثقافتی و سائنسی بائیکاٹ لازمی ہے۔ خاص طور پر صہیونی بستیوں کی تعمیر میں ملوث کمپنیوں میں سرمایہ کاری بند کی جائے۔ امریکی حکومت سے خطاب: امریکی مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ سیاسی دباؤ کے ذریعے اپنی حکومت کو ظلم سے روکیں۔ حامی کمپنیوں کا بائیکاٹ جاری رکھیں: اس بائیکاٹ نے مثبت اثرات دکھائے ہیں اور اسے خصوصاً ان ممالک و کمپنیوں کے خلاف جاری رکھنا چاہیے جو براہِ راست صہیونی رژیم کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ عوامی امداد فرض: مسلمانوں پر فرض ہے کہ غزہ کے عوام کیلئے خوراک، دوا، ایندھن وغیرہ فراہم کریں۔ اگر حکومتیں رکاوٹ بنیں، تو خدا کی اطاعت مقدم ہے۔ امتِ مسلمہ کا اتحاد: اختلافات چھوڑ کر، فلسطینی دھڑوں، اسلامی حکومتوں اور اداروں کو متحد ہونا ناگزیر ہے۔ دعائیں اور مناجات: نمازوں، بالخصوص نوافل اور فرض نمازوں میں غزہ کی نصرت کیلئے دعائیں کی جائیں، اور ہر حال میں اللہ سے مدد طلب کی جائے۔ حامیوں کا شکریہ: ہر اُس ملک، ادارے، فرد یا یہودی شخص کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے جس نے غزہ کے مظلوموں کا ساتھ دیا۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔"
4274751