ایکنا: تفسیری متون میں آیا ہے کہ "شعائر" لفظ "شعیرہ" کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو مخصوص عبادتی اعمال کی ادائیگی کے لیے مقرر کی جاتی ہیں۔ "شعائر اللہ" بھی وہی نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی عبادت کے لیے مقرر فرمائی ہیں۔ انہی نشانیوں میں صفا اور مروہ شامل ہیں؛ دو پہاڑیاں جو آج مسجد الحرام کے ساتھ ایک مسقف (چھت والے) راستے کی صورت میں موجود ہیں، اور بیت اللہ کے زائرین کو حکم دیا گیا ہے کہ ان دونوں کے درمیان سات مرتبہ سعی کریں۔
یہ سعی حضرت ہاجرہ، حضرت ابراہیم (ع) کی زوجہ کی ایثار اور فداکاری کی یادگار ہے، جنہوں نے اپنے شیر خوار بچے اسماعیل کے لیے پانی کی تلاش میں اضطراب، توکل اور دعا کے ساتھ یہ راستہ سات بار طے کیا۔ یہ عمل توحیدی نگاہ میں اتنا بلند و بالا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں: "زمین پر ان دو پہاڑیوں کے درمیان سے بہتر کوئی مقام نہیں۔" کیونکہ یہاں ہر متکبر شخص کو کفن پہنے، ننگے پاؤں، فخر و غرور سے پاک ہو کر دوڑتے یا چلتے ہوئے اپنی بندگی کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔
تاہم دورِ جاہلیت میں ان شعائر کی حقیقت مسخ کر دی گئی تھی۔ مشرکوں نے ان دونوں پہاڑیوں پر "اساف" اور "نائلہ" نامی دو بت نصب کیے ہوئے تھے اور سعی کے وقت ان سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام کے ابتدائی دور میں بعض مسلمانوں نے یہ گمان کیا کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا جاہلی اور ناپسندیدہ عمل ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے قرآن کریم نے واضح انداز میں اعلان کیا: "إِنَّ الصَّفا وَالْمَروَةَ مِنْ شَعائِرِ اللَّهِ" (سورۃ البقرہ، آیت 158)
یہ آیت نہ صرف ان دونوں مقامات کی مشروعیت اور تقدس کو ثابت کرتی ہے، بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ قرآن کی نگاہ میں بندگی کی نشانیوں کو صرف اس وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تاریخ میں کبھی شرک یا جاہلیت سے آلودہ ہو گئی تھیں۔ شعائر الٰہی، خواہ ماضی میں کبھی جہالت یا شرک سے آلودہ رہے ہوں، توحید اور وحی کے نور سے پاکیزہ اور زندہ کیے جا سکتے ہیں۔/