ایکنا نیوز، دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیتالله خامنهای کے اطلاع رسانی مرکز کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیتالله خامنهای نے اس سال موسم حج کے موقع پر اپنے پیغام اہم امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔
رہبر انقلاب نے اپنے پیغام میں حج کے سفر کو ایک عام زندگی سے توحیدی زندگی کی طرف ہجرت کی مشق قرار دیا اور فرمایا کہ زندگی توحیدی کے بنیادی اجزاء کو شمار کرتے ہوئے کہا کہ حج کا آئین، توحیدی زندگی کی علامتی مثالوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، حج گزار کو ان سے آشنا کرتا ہے اور اس کی طرف دعوت دیتا ہے، لہٰذا اس دعوت کو سننا، سیکھنا اور اس کے اسباق کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عزم مصمم کرنا چاہیے۔
حضرت آیتالله خامنهای نے فرمایا کہ آج کی اسلامی دنیا کو حج کے اسباق پر عمل کرنے کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ یہ دوسرا حج ہے جو غزہ میں صہیونی حکومت کے جرائم کے ساتھ ہمزمان ہوا ہے اور سوال اٹھایا کہ: اس انسانی المیے کے مقابلے میں کون کھڑا ہوگا؟ انہوں نے مزید کہا: بلاشبہ اسلامی حکومتیں سب سے پہلے اس فریضے کی مخاطب ہیں اور اقوام، ان سے اس پر عمل کا مطالبہ کرنے والی ہیں۔
رہبر معظم نے امریکہ کو غزہ میں صہیونی حکومت کے جرائم میں یقینی شریک قرار دیتے ہوئے تاکید کی کہ مسلمان حکومتوں کو چاہیے کہ صہیونی حکومت کی امداد کے تمام راستے بند کریں اور غزہ میں اس کے ظلم و ستم کو روکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں امریکہ کے اتحادیوں کو بھی چاہیے کہ وہ اس متکبر حکومت کو صہیونی حکومت کی حمایت روکنے پر مجبور کریں۔
متن پیام رهبر انقلاب اسلامی:
بسمالله الرّحمن الرّحیم
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی خیر خلقالله محمّدٍ المصطفی و آله الطّیّبین و صحبه المنتجبین و من تبعهم باحسان الی یومالدّین.
حج، مؤمنوں کی آرزو، شوق رکھنے والوں کی عید اور سعادتمندوں کا روحانی رزق ہے۔ اگر یہ حج معرفت کے ساتھ اور اس کے اسرار و رموز کی گہرائی کو سمجھتے ہوئے انجام دیا جائے تو یہ اسلامی امت، بلکہ پوری انسانیت کے بڑے دردوں کا علاج ہے۔
حج کا سفر دیگر سفروں کی طرح نہیں جو تجارت، سیاحت یا دیگر دنیوی مقاصد کے لیے انجام پاتے ہیں اور جن میں بسا اوقات عبادت یا نیکی کا کوئی کام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ حج کا سفر ایک مشق ہے، جو عام زندگی سے مطلوبہ زندگی کی طرف ہجرت کی تربیت دیتا ہے۔
مطلوبہ زندگی، توحیدی زندگی ہے۔ ایسی زندگی جس میں:
حج کا آئین ان تمام عناصر کی علامتی مثالوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، حاجی کو ان سے روشناس کراتا ہے اور اس زندگی کی طرف بلاتا ہے۔
اس دعوت کو سننا چاہیے؛ دل اور ظاہری و باطنی آنکھیں کھولنی چاہئیں؛ سیکھنا چاہیے اور ان اسباق کو اپنانے کے لیے اپنے عزم کو مضبوط کرنا چاہیے۔ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس راہ میں قدم اٹھا سکتا ہے، لیکن علما، مفکرین، سیاسی مناصب رکھنے والے اور سماجی حیثیت رکھنے والے افراد کی ذمہ داری دوسروں سے بڑھ کر ہے۔
آج کی اسلامی دنیا کو ان اسباق پر عمل کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ یہ دوسرا حج ہے جو غزہ اور مغربی ایشیا میں جاری ہولناک مظالم کے ساتھ ایک ہی وقت میں ہو رہا ہے۔ فلسطین پر مسلط مجرم صہیونی ٹولہ بےمثال قساوت، شقاوت اور شرارت کے ساتھ غزہ کے المیے کو ناقابلِ یقین حد تک پہنچا چکا ہے۔ آج فلسطینی بچے صرف بم، گولے اور میزائلوں سے نہیں، بلکہ پیاس اور بھوک سے جان دے رہے ہیں۔ عزیزوں، جوانوں، ماؤں اور باپوں کا سوگ منانے والے خاندانوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
تو اس انسانی المیے کے سامنے کون کھڑا ہوگا؟
بلاشبہ اسلامی حکومتیں سب سے پہلے اس فریضے کی مخاطب ہیں، اور اقوام، ان سے اس فریضے پر عمل کا مطالبہ کرنے والی ہیں۔ اگرچہ مسلمان حکومتیں مختلف سیاسی مسائل پر اختلاف رکھتی ہوں، لیکن غزہ کے اندوہناک سانحے اور دنیا کی مظلوم ترین قوم کے دفاع میں ان کا متحد ہونا اور تعاون کرنا ناگزیر ہے۔
مسلمان حکومتوں کو چاہیے کہ:
حج میں برائت (بیزاری) کی رسم اس راہ میں ایک عملی قدم ہے۔
غزہ کے عوام کی حیرت انگیز مزاحمت نے مسئلہ فلسطین کو اسلامی دنیا اور تمام آزاد انسانوں کی توجہ کے مرکز میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس مظلوم قوم کی مدد کو پہنچنا چاہیے۔
اگرچہ صہیونی حکومت اور اس کے سرپرست، مسئلہ فلسطین کے نام اور ذکر کو فراموش کرانے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس حکومت کے سرکردہ افراد کی خبیث فطرت اور احمقانہ پالیسیوں نے ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ آج فلسطین کا نام پہلے سے کہیں زیادہ تابناک ہے، اور صہیونیوں و ان کے حامیوں کے خلاف نفرت پہلے سے کہیں زیادہ پھیل چکی ہے۔ یہ اسلامی دنیا کے لیے ایک اہم موقع ہے۔
سماجی حیثیت رکھنے والے افراد اور مقررین کو چاہیے کہ وہ عوام کو باخبر، حساس اور فلسطین کے حوالے سے مزید مطالبات کرنے والا بنائیں۔
آپ خوش نصیب حجاج بھی دعاؤں اور مناسک حج میں خدا سے مدد طلب کرنے کے اس موقع کو ضائع نہ کریں اور ظالم صہیونیوں اور ان کے حامیوں پر فتح کی دعا کریں۔
خدا کا درود و سلام ہو پیغمبر اسلام ﷺ اور آپ کے پاکیزہ اہل بیتؑ پر، اور سلام ہو حضرت بقیةالله امام مہدیؑ (عجّل الله فرجه الشریف) پر۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته سید علی خامنہای