ایکنا نیوز- رؤیا الاخباری نیوز کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اعلان کیا ہے کہ کچھ بدتمیز اور بداخلاق افراد نے ہمارے عظیم پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی شان میں ناقابلِ قبول گستاخی کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک کھلی اشتعال انگیزی اور نفرت انگیز اقدام ہے۔
صدر اردوغان نے مزید کہا کہ ترکی کی سکیورٹی فورسز اور عدلیہ نے توہین آمیز کارٹونز کے معاملے پر فوری کارروائی کی، متعلقہ میگزین کو ضبط کر لیا گیا ہے اور قانونی اقدامات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ جو کوئی بھی ہمارے پیغمبرِ اکرم ﷺ یا دیگر انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی کرے گا، اسے عدلیہ کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا، اور ہم خود اس معاملے کا پیچھا کریں گے۔
توہین رسالت کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے، مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور کئی مقامات پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ حکام نے گستاخی کے مرتکب میگزین کے ذمہ دار افراد کی گرفتاری کا حکم دیا۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ترکی کے فکاہیہ (طنزیہ) میگزین "لِمان (Leman)" نے حضرت محمد ﷺ کی شان میں ایک توہین آمیز کارٹون شائع کیا۔ اس کے بعد ترک استغاثہ نے میگزین کے ذمہ داران کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے اور ملک بھر میں عوامی غصے کی لہر دوڑ گئی۔
برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق، استنبول میں مظاہروں کے دوران پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پلاسٹک کی گولیاں اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
جھڑپیں اس وقت شدید ہو گئیں جب استنبول کے چیف پراسیکیوٹر نے میگزین کے مدیران کو "مذہبی اقدار کی علانیہ توہین" کے الزام میں گرفتار کرنے کا حکم دیا۔
میگزین کے مدیر تونجائے آکگون نے اپنی صفائی میں دعویٰ کیا کہ کارٹون توہین آمیز نہیں تھا بلکہ اسے غلط انداز میں سمجھا گیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ایجنسی AFP کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا:
"یہ کارٹون کسی بھی طور پر پیغمبر اسلام ﷺ کی تصویر نہیں ہے۔ ہم نے اس کارٹون میں ’محمد‘ کا خیالی نام ایک ایسے مسلمان کے لیے استعمال کیا ہے جو اسرائیلی بمباری میں شہید ہوا۔ پوری اسلامی دنیا میں محمد نام کے دو سو ملین سے زائد افراد ہیں۔ یہ کارٹون حضرت محمد ﷺ سے کسی بھی طور پر منسوب نہیں ہے، ہم کبھی ایسا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
تاہم، گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، کارٹون کے سامنے آنے کے بعد مشتعل مظاہرین نے استنبول کے ایک علاقے میں واقع اس دفتر پر حملہ کر دیا جہاں عموماً میگزین کے ملازمین موجود رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔/