ایکنا نیوز- الجزیرہ نیوز چینل کے مطابق مشرقی یورپ کے کنارے واقع اس مدرسے کی بنیاد 2010 میں رکھی گئی۔ یہ مدرسہ ان مسلمانوں کی علمی و روحانی پیشرفت کا مظہر ہے جو کئی دہائیوں تک دینی جبر اور اسلامی شناخت کے خاتمے کا شکار رہے، خصوصاً بوسنیائی نسل کے مسلمان۔
مدرسے کے ڈائریکٹر عرفان مالیچ کے مطابق، یہ مدرسہ سربیا کی مشیخت اسلامی (ادارہ امور مسلمین) کے زیرانتظام ہے اور اس وقت تین ہزار سے زائد لڑکے اور لڑکیاں صربیا کے 30سے زیادہ شہروں اور قصبوں (جن میں دارالحکومت بلغراد بھی شامل ہے) اور یہاں تک کہ یورپ کے ان ممالک سے بھی آ رہے ہیں جہاں بوسنیائی مسلمان آباد ہیں۔
مالیچ نے بتایا کہ طلبہ کی عمریں 6 سے 70 سال تک ہیں، اور انہیں قرآن سے محبت اور جستجو نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر رکھا ہے۔ ان کے مطابق: "ہم نے ہر شہر اور گاؤں میں قرآنکریم کی شاخیں قائم کی ہیں تاکہ کوئی بھی علاقہ قرآن کے بغیر نہ رہے۔"
کمیونزم کے دور، جو 1990 کی دہائی کے اوائل تک جاری رہا، میں صربیا کے مسلمان قرآن کو لاطینی رسم الخط میں پڑھنے پر مجبور تھے۔ مالیچ نے کہا: "اس وقت ہم میں سے کوئی بھی حافظِ قرآن نہ تھا۔" لیکن اب، مدرسے کی کوششوں سے ایسے حفاظ سامنے آ چکے ہیں جنہوں نے اجازہ (قرآن کی تلاوت کی سند) حاصل کی ہے جو براہ راست رسول اللہ ﷺ تک متصل ہے۔
مدرسے میں قرآن کی تعلیم مختلف مراحل میں دی جاتی ہے:
1. عربی حروف کی شناخت
2. تجوید اور لحن کی تعلیم
3. آخری پاروں کا حفظ
4. مکمل قرآن کا حفظ
مدرسہ، طلبہ کی حوصلہ افزائی اور مسابقتی روح پیدا کرنے کے لیے اب تک 11 داخلی قرآنی مقابلے منعقد کر چکا ہے، اور بین الاقوامی سطح پر بھی کامیابی حاصل کی ہے، جن میں مکہ مکرمہ میں ایک قرآنی مقابلے میں پہلی پوزیشن بھی شامل ہے۔
مدرسے کی ایک معلمہ جَنّہ عبداللہ کے مطابق، ابتدائی سطح پر طلبہ حروف سیکھتے ہیں، پھر حفظ اور تفسیر کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ساتھ ہی، انہیں قرآنی سورتوں سے اسلامی اقدار اخذ کرنا سکھایا جاتا ہے تاکہ وہ اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
مدرسے کا کردار صرف تعلیم تک محدود نہیں، بلکہ معاشرے پر بھی اس کے مثبت اثرات ہیں۔ رمضان کی 27ویں شب، نووی پازار کے مرکزی میدان میں تقریباً 10 ہزار افراد تراویح کی نماز میں شرکت کرتے ہیں۔ اس موقع پر نمایاں طلبہ کو عمرہ یا حج کے انعامات دیے جاتے ہیں۔
ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد، "مدرسہ نووی پازار" محض ایک تعلیمی ادارہ نہیں رہا، بلکہ یہ اسلامی روحانیت کا چراغ بن چکا ہے۔ یہ مدرسہ صربیا میں قرآن اور اسلام کی موجودگی کو دوبارہ زندہ کر رہا ہے، اور ایسے افراد کو اسلامی شناخت سے جوڑ رہا ہے جو اس سے تقریباً کٹ چکے تھے۔
جہاں تین دہائیاں پہلے ایک بھی حافظ قرآن نہ تھا، آج وہاں قرآن کی تلاوتیں گونج رہی ہیں، حفاظ فارغ التحصیل ہو رہے ہیں، اور نئی نسل قرآن کو سینوں میں محفوظ کر رہی ہے یہ امید کا وہ پیغام ہے جو حروف عربی میں، دلِ بلقان میں لکھا جا رہا ہے۔/
4297297