ایکنا نیوز- الجزیرہ نے سلمان بونعمان (ماہرِ علومِ سیاسی اور مرکزِ مطالعات و تحقیقات معارف، کازابلانکا کے سربراہ) کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں نتن یاہو کے نئے منصوبے "اسرائیلِ بزرگ" اور اس کے اثرات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
نتن یاہو نے صاف الفاظ میں اعلان کیا تھا: مجھے ایک تاریخی و روحانی ذمہ داری کا احساس ہے ... میں اسرائیلِ بزرگ کے خواب سے گہری وابستگی رکھتا ہوں، جو فلسطین کے ساتھ ساتھ اردن اور مصر کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔
یہ بیان محض ایک سیاسی نعرہ یا وقتی تقریر نہیں بلکہ صہیونی منصوبے کی گہرائی کو آشکار کرتا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تنازعہ صرف جغرافیائی سرحدوں یا معاشی مسائل پر نہیں بلکہ عقیدہ، شناخت اور تمدنی منصوبے پر مبنی ہے۔
یہ اعتراف اُن تمام سیکولر ـ مادّی اور ریئلسٹ ـ عقلی تجزیوں کو باطل کر دیتا ہے جو دہائیوں سے صہیونی ریاست کو ایک "جدید سیکولر ریاست" کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نتن یاہو خود کو ایک مذہبی رہنما اور الٰہی مشن کے حامل کمانڈر کے طور پر دیکھتا ہے، جو ایک بڑے صہیونی خواب کی تکمیل کے لیے سرگرم ہے۔
اگر اس منصوبے کے ثقافتی و تمدنی پہلو کو نظرانداز کیا جائے تو یہ یا تو صہیونی منصوبے سے فکری شراکت ہے یا پھر اس کے اصل کو سمجھنے میں غفلت۔ اس طرح مسئلے کو محض "سرحدی تنازعہ" یا "سکیورٹی مسئلہ" قرار دے دیا جاتا ہے، جسے مذاکرات یا معاہدوں کے ذریعے حل کرنے کی امید باندھی جاتی ہے۔
نتن یاہو کے بیانات دراصل اس بات کے متقاضی ہیں کہ ایک "جیوتمدنی نقطۂ نظر" سے اس پورے منصوبے کو سمجھا جائے۔ یہ دراصل ایک مذہبی ـ تمدنی تصادم ہے، ایک نوآبادیاتی شہرک سازی کا منصوبہ ہے، ایک جیوپولیٹیکل جوا ہے۔
منصوبہ "اسرائیلِ بزرگ" در حقیقت فلسطین کی ریاست کے خاتمے اور 1967ء کی سرحدوں کو بھی مسترد کرنے پر مبنی ہے۔ اس سے زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ عرب معاشروں میں فکری و قدری تبدیلی لا کر اس منصوبے کو قابلِ قبول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہاں ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ بات یاد آتی ہے: "نقشے پر اسرائیل کا رقبہ چھوٹا لگتا ہے اور میں ہمیشہ سوچتا رہا ہوں کہ اسے کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے۔"
اسرائیلِ بزرگ کا یہ منصوبہ دراصل خطے پر مکمل تسلط، مزید بستیوں کی تعمیر، آوارگی اور قتلِ عام کو جاری رکھنے اور ایک "اسرائیلِ توراتی" کے قیام کی راہ ہموار کرنے کی سازش ہے۔
یہی وہ منصوبہ ہے جو "اسرائیل قطب" کی تشکیل چاہتا ہے، تاکہ پورے خطے میں بالادستی حاصل کی جائے اور تمام فعال طاقتوں کو مطیع بنا دیا جائے۔
صہیونی ریاست اپنی برانداز فطرت کو نہیں چھپاتی؛ یہ دراصل "شرِ مطلق" کی نمائندگی کرتی ہے۔
نتیجہ
فلسطین آج پوری امتِ مسلمہ کے لیے اخلاقی اور آزادی کے قطب نما کو درست کر رہا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ فلسطینی جدوجہد محض سرزمین کا نہیں بلکہ وجود، کرامت، شناخت اور عقیدے کا معرکہ ہے۔
استعمار کا مقصد صرف عسکری برتری نہیں بلکہ مقبوضہ قوم کی آگاہی کو مسخ کرنا، خوف پیدا کرنا اور مزاحمت سے پشیمان کرنا ہے۔
یوں صہیونی منصوبے کی اصل حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ فلسطینی عوام کو فوجی طاقت سے پہلے نفسیاتی اور ثقافتی طور پر شکست دینا تاکہ پائیدار تسلط قائم ہو سکے۔
لہٰذا منصوبہ "اسرائیلِ بزرگ" ایک توسیع پسند نقشے سے بڑھ کر ایک توراتی خواب اور الٰہی داستان ہے، جو صہیونیت کو روحانی، فکری اور ثقافتی سطح پر نئی زندگی عطا کرنے کی کوشش ہے۔ اصل فیصلہ کن معرکہ امت مسلمہ کے لیے یہ ہے کہ وہ صہیونی داستان کو توڑے، اس سے پہلے کہ صہیونی طاقت کو توڑے۔/
4301610