ایکنا نیوز- ملک معتصم خان، نائب صدر جماعتِ اسلامی ہندوستان نے تہران میں منعقدہ 39ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے وحدتِ اسلامی کے موقع پر ایکنا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک کے اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی ارادے کی کمزوری ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومتوں کو محض باتوں اور قراردادوں کے اجراء سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
انہوں نے کہا: ہم دیکھتے ہیں کہ یورپی یونین کس طرح کام کرتی ہے، نیٹو کس طرح عمل کرتا ہے۔ ان اداروں میں ہم عملی حل دیکھتے ہیں۔ تو پھر مسلم ممالک کے لیے اقتصادی ترقی، علمی ترقی، تعلیمی ترقی اور صنعتی ترقی کے لیے اتحاد یا تنظیم بنانا کیوں ممکن نہیں؟ ہمیں ایک دوسرے کی جغرافیائی شناخت کا احترام کرنا چاہیے، ثقافتی شناخت کا بھی احترام ہونا چاہیے۔ میرا مطلب یہ نہیں کہ اپنی شناخت کو بھول جائیں، چاہے وہ جغرافیائی ہو، مسلکی یا مذہبی۔ لیکن اگر کوئی ہمسایہ ملک تعلیمی میدان میں مشکلات کا شکار ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی مدد کریں تاکہ وہ اس بحران سے نکل سکیں۔
قیادت میں ارادے کی کمی؛ عالمِ اسلام کا اصل مسئلہ
انہوں نے مزید کہا: آج ہمارے پاس او آئی سی جیسے ادارے ہیں لیکن وہ مؤثر نہیں ہیں۔ ہمارا مقصد محض قراردادیں منظور کرنے والی کانفرنسوں کا ذکر نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ وہ اجلاس کرتے ہیں اور قراردادیں منظور کرتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ عملی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ نچلی سطح پر دانشوروں، ماہرینِ تعلیم اور میڈیا کے درمیان زندگی کے مختلف پہلوؤں میں تعاون ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک کا سب سے بڑا چیلنج شناخت" نہیں بلکہ "عزم و ارادہ" ہے۔ انہوں نے کہا: اگر ہماری حکومتیں اور ان میں فیصلہ ساز لوگ ارادہ کر لیں تو ہم ایسے اتحاد قائم کر سکتے ہیں۔
فلسطین کا بحران؛ عالمِ اسلام کا درد
معتصم خان نے مسئلہ فلسطین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو فلسطینی مزاحمت کی مدد کرنی چاہیے، یہ مسئلہ پوری امت کے لیے درد اور اذیت کا باعث ہے۔
ان کے مطابق فلسطینی عوام ظلم و جبر، جلاوطنی، معاشی پابندیوں اور حتیٰ کہ نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: ساری امت کو بلا تردد متحد ہونا چاہیے، ان کی مدد کرنی چاہیے اور ان کی مزاحمت کو تقویت دینی چاہیے/
4305556