مولانا کے افکار اور وحدت در عین کثرت

IQNA

نوٹ؛

مولانا کے افکار اور وحدت در عین کثرت

5:57 - October 01, 2025
خبر کا کوڈ: 3519242
ایکنا: مولانا وحدت کو کثرت کے ساتھ بیان کرنے کے لیے سورج کی روشنی کی تمثیل پیش کرتے ہیں۔ جس طرح سورج کی کرنیں جب آسمان سے گھروں کے صحن میں پڑتی ہیں تو دیواروں کے درمیان تقسیم ہو کر بکھر جاتی ہیں، اسی طرح جسم اور مادی زندگی بھی ایک یگانہ روح کو ٹکڑوں میں بانٹ دیتی ہے، لیکن ان سب کا منبع اور مرکز ایک ہی ہے۔

ایکنا نیوز- جلال الدین محمد بلخی (۶۰۴-۶۷۲ ھ)، ساتویں صدی کے مشہور شاعر اور عارف، اپنی ہجرت اور تعلیم کے بستر پر ایسی شخصیت میں ڈھلے جو پوری دنیا میں پہچانی گئی۔ ان کا فکری سفر اس وقت شروع ہوا جب ان کے والد، سلطان العلماء بہاء الدین ولد، ۶۱۰ ہجری میں بلخ سے اناطولیہ (آسیائے صغیر) ہجرت کر گئے۔ وہاں مولانا نے پہلے اپنے والد اور پھر برہان‌الدین محقق ترمذی کی تربیت پائی۔

لیکن ان کی زندگی کا اصل نقطۂ عطف شمس تبریزی سے ملاقات تھی۔ یہ ملاقات ایسی عظیم تبدیلی کا باعث بنی کہ سابقہ واعظ و مدرس نے مسندِ درس چھوڑ دی اور سماع اور وجد کی راہ اختیار کی۔ یہ تبدیلی ان کی زندگی کے ایک نئے دور کی ابتداء تھی، جو بعد میں ان کے مریدوں مثلاً صلاح‌الدین زرکوب اور پھر حسام‌الدین چلبی کی رفاقت میں آگے بڑھا۔ یہی حسام‌الدین تھے جنہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ اپنی عظیم ترین تصنیف، مثنوی، کو انسانیت کے سامنے پیش کریں۔

مولانا کی باقی ماندہ تصانیف میں مثنوی کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ یہ منظومہ عام اور خاص قارئین کو ایک فکری و روحانی سفر پر لے جاتا ہے۔ مولانا خود قرآن اور اسلام کے سایے میں پروان چڑھے تھے اور ان کا سب سے بڑا مقصد دینِ اسلام اور احکامِ زندگی کی ترویج کو دلنشین اور ادبی زبان میں پیش کرنا تھا۔ تمثیل اور حکایات کے پردے میں نصیحت اور تعلیم دینا، ان کی تربیتی روش شمار ہوتی ہے۔

مولانا جلال الدین بلخی کی فکری بنیادیں خالص قرآنی تعلیمات اور دینی سنت میں پیوست ہیں، لیکن ان کی شخصیت کو ممتاز کرنے والی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے میں "نگاہ بدلنے" کی ضرورت کو گہری بصیرت سے محسوس کیا۔ وہ اس ادراک تک پہنچے تھے کہ دینِ اسلام، اگرچہ آخری اور بابرکت آسمانی پیغام ہے، لیکن اسے بھی ہر دور کے شعور اور ظرف کے مطابق ایک تازہ، متحرک اور بامعنی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مولانا نے اپنی تعلیمات کو ایسے پیرائے میں پیش کیا کہ وہ دلوں میں اتر سکیں اور زمانہ ساز بن سکیں۔ پرامن ہمزیستی، محبت اور شفقت، برابری و مساوات، اور اتحاد و اخوت جیسے تصورات—جنہیں آج "بین المذاہب مکالمہ" اور "انسانی یکجہتی" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے—ان کی تعلیمات میں تمثیلوں اور حکایتوں کے ذریعے اس انداز سے جلوہ گر ہوتے ہیں جو روشن، دلکش اور سامع کے حال کے مطابق ہو۔

مولانا نے ان بلند معانی کو اپنی بے نظیر ادبی اور لسانی تخلیقات کے ساتھ یوں آمیختہ کہ ان کا اثر زیادہ گہرا اور دیرپا بن گیا۔/

 

4307966

نظرات بینندگان
captcha