پاکستانی محقق اور مولانا، قرآن و تفسیر صوفیانه

IQNA

پاکستانی محقق اور مولانا، قرآن و تفسیر صوفیانه

7:30 - October 15, 2025
خبر کا کوڈ: 3519319
ایکنا: کتاب «مولانا و قرآن؛ قرآنی قصے اور صوفیانہ تفسیر» پاکستانی نژاد محقق و مصنف عامر لطیف کی تصنیف ہے، جسے علی السعدی نے عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

ایکنا نیوز، عربی ویب سائٹ عربی 21 نے اپنی ایک رپورٹ میں اس کتاب کا جائزہ پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

جلال‌الدین رومی؛ شاعر اور عارفِ نظرانداز شدہ

عامر لطیف، جو ایک پاکستانی نژاد امریکی محقق اور مصنف ہیں، اس کتاب میں ایک دلچسپ حقیقت سے آغاز کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جلال‌الدین رومی امریکہ کے سب سے زیادہ مشہور اور محبوب شاعر ہیں، اور وہ ایک مسلمان صوفی تھے جو تیرھویں صدی عیسوی میں زندہ تھے۔ رومی کی فارسی تصانیف کے تراجم مستشرقین نے دیگر زبانوں میں کیے، جنہوں نے ان کے فکری ورثے کو اپنی ثقافت میں منتقل کیا۔ تاہم، ایک ثقافت سے دوسری ثقافت میں ترجمے کے عمل نے ان کے قرآن سے گہرے تعلق کو سمجھنے میں کئی ابہام پیدا کیے۔

یہ کتاب اسی خلا کو پُر کرنے کے لیے لکھی گئی ہے، تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ رومی کا تصوف ایک جامع اور عالمی تجربہ ہے جو مذہب، نسل اور قومیت کی سرحدوں سے ماورا ہے۔ رومی کا قرآنی فہم انسان کی اس فطری ضرورت کو پورا کرتا ہے جو اسے وجودِ مطلق (خدا) سے رابطے میں رہنے پر آمادہ کرتی ہے۔ مصنف کے مطابق، کتاب کا مقصد تمام مذاہب و مکاتبِ فکر کے عام قارئین کو یہ دکھانا ہے کہ محبت، حسن اور رحمت کے وہ تصورات جو رومی کی شاعری میں پائے جاتے ہیں، قرآنی اصولوں سے جنم لیتے ہیں۔

قرآن کی تفسیر: شیعہ، فقہا اور صوفیا کے مابین

کتاب کے محقق نے قرآن کی تفسیر کے مختلف رجحانات اور ان سے وابستہ علوم جیسے قراءات، احکام، ناسخ و منسوخ، حدیث، اصولِ دین، اصولِ فقہ، زبانِ عربی اور نحو وغیرہ کی وضاحت کی ہے، اور ان علوم سے متعلق اہم دائرۃ المعارفوں کا تعارف بھی کرایا ہے۔

مولانا و قرآن؛ قصه‌های قرآنی و تفسیر صوفیانه

 

صوفیانہ تفسیرِ قرآن ایک جداگانہ زاویہ رکھتی ہے، جسے بعض اوقات تفسیرِ اشاری یا تفسیرِ فیضی کہا جاتا ہے۔ قرآن کے معروف صوفی مفسرین میں ابن عطا آدمی، ابویزید بسطامی اور محی الدین ابن عربی شامل ہیں۔

جلال‌الدین رومی نے تفسیر کے لیے کوئی خاص نظریہ یا باقاعدہ طریقہ کار پیش نہیں کیا، لہٰذا مصنف نے خود ان کے متون کا مطالعہ کر کے ان کی خصوصیات کو واضح کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ رومی نے ساخت (form) اور معنی (meaning) کی دوگانگی کو بنیاد بنایا۔ ان کے نزدیک کسی چیز کی ظاہری شکل اس کا قابلِ ادراک پہلو ہے، لیکن اس کی حقیقی حقیقت اس کا باطنی اور نادیدہ مفہوم ہے۔

رومی نے نبی اکرم ﷺ کی اس دعا — «اللهم أرنا الأشياء كما هي» (اے اللہ! ہمیں چیزیں ویسی دکھا جیسے وہ حقیقت میں ہیں) — سے استدلال کیا کہ دنیا کی ظاہری صورت محض حقیقت پر ایک پردہ ہے۔

آخر میں، مولانا رومی قرآن کی باطنی معانی کے انکشاف اور تفسیر کا وہ صحیح نمونہ پیش کرتے ہیں جسے وہ روحانی فہم کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس عمل میں وہ ایک رہنما اور معلم کا کردار ادا کرتے ہیں جو انسان کو معرفتِ الٰہی کی طرف رہنمائی دیتا ہے۔/

 

4263526

نظرات بینندگان
captcha