
ایکنا نیوز، زکی المیلاد نے ویب سائٹ مؤمنون بلا حدود پر شیخ محمد یوسف موسی کی کتاب "قرآن و فلسفہ" کے بارے میں لکھا ہے: سن 1958 میں، شیخ محمد یوسف موسی (1317-1383ھ / 1859-1963ء)، جو جامعۃ الازہر کے بزرگ علما میں شمار ہوتے ہیں، نے اپنی کتاب "قرآن و فلسفہ" کا پہلا ایڈیشن شائع کیا۔ یہ کتاب دراصل ان کے فرانسیسی زبان میں لکھے گئے پی ایچ ڈی مقالے کے پہلے حصے پر مبنی تھی، جس کا انہوں نے 1948 میں سوربون یونیورسٹی، فرانس میں دفاع کیا تھا۔ انہیں فلسفے میں اعلیٰ ترین اعزاز کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی۔ اس مقالے کا عنوان تھا: "ابن رشد اور قرونِ وسطیٰ کے فلسفیوں کے نزدیک دین اور فلسفہ"۔
مقالے کے دفاع کے بعد، ڈاکٹر موسی نے اسے فرانسیسی سے عربی میں ترجمہ کیا اور دو جلدوں میں شائع کیا۔ پہلی جلد "قرآن و فلسفہ" کے نام سے شائع ہوئی اور دوسری جلد، مقالے کے اصل عنوان کے ساتھ، 1959 میں منظرِ عام پر آئی۔
کتاب کی نمایاں خصوصیت
اس کتاب کا سب سے پہلا پہلو جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے وہ اس کا اثر انگیز عنوان "قرآن و فلسفہ" ہے۔ ممکن ہے کہ جدید عرب دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہو جس نے قرآن اور فلسفہ کو ایک پیچیدہ مگر ہم آہنگ تعلق میں پیش کیا، جو تضاد اور جدائی کے بجائے ربط اور موافقت پر مبنی ہے۔
مصنف کے نقطۂ نظر کا خلاصہ ذیل کے نکات میں کیا جا سکتا ہے:
اول: قرآن نے انسان، خدا اور ان دونوں کے تعلق سے متعلق فلسفیانہ اصولوں کو شامل کر کے مسلمانوں کو فلسفیانہ تحقیق کی جانب سب سے زیادہ ابھارا۔
دوم: ڈاکٹر موسی کے مطابق قرآن بنیادی طور پر ایمان، شریعت اور اخلاق کا کتاب ہے — ایک ایسا اخلاقی نظام جس کے بغیر کوئی صحت مند معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ تاہم قرآن اپنی بہت سی آیات میں ان بنیادی فلسفیانہ، کلامی، طبعی اور انسانی مسائل پر بھی بحث کرتا ہے جنہوں نے ہمیشہ اہلِ علم و فکر کو مشغول رکھا ہے۔ قرآن کا ان مسائل کو اُٹھانے اور پیش کرنے کا طریقہ خاص طور پر کلامی مباحث میں نہایت گہرے غور و فکر کو جنم دیتا ہے اور فکری تنوع کا باعث بنتا ہے۔
سوم: اگرچہ قرآن نے فلسفیانہ سوچ کو تقویت دی اور مختلف مکاتبِ فکر کے متکلمین کے لیے مرکزی محرک بنا، لیکن اس نے ایک خاص قسم کی فلسفیانہ فکر کے سامنے رکاوٹ بھی کھڑی کی۔ وہ فکر جو یونانی فلسفے سے براہِ راست متاثر تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن نے بہت سے ایسے مسائل میں واضح اور قطعی رائے پیش کی تھی جن پر یونانی فلسفی حیران و پریشان تھے۔
چهارم (چوتھا): ڈاکٹر موسی کے نزدیک اگر قرآن نہ ہوتا تو اسلامی فکری تاریخ میں وہ مکاتبِ فکر وجود میں نہ آتے جنہوں نے اپنی آرا کی بنیاد خود قرآن پر رکھی یا اس سے استدلال کیا۔ فارابی، ابن سینا اور ابن رشد جیسے فلسفیوں کے افکار متکلمین کے مکاتب کی سطح تک نہ پہنچ سکے، کیونکہ انہوں نے اپنے نظریات کی تشکیل میں قرآن سے براہِ راست استفادہ نہیں کیا، اگرچہ کبھی کبھار تائیدی دلائل ضرور تلاش کیے۔
پنجم: اگرچہ قرآن مسلمانوں کے لیے فلسفے کا بنیادی محرک تھا، لیکن یونانی فلسفے سے ان کے رابطے نے بھی فلسفیانہ پیداوار پر اثر ڈالا۔ یہ رابطہ پہلے سریانی واسطے سے اور بعد میں تراجم کی صورت میں قائم ہوا۔ یوں مسلمانوں کے فلسفہ کی طرف جھکاؤ کے دو بڑے اسباب بنے:
قرآن
یونانی ورثے کا علمی رابطہ۔
ششم: جرمن مستشرق تنمان (وفات 1819ء) کے اس دعوے کو رد کیا گیا ہے کہ قرآن جیسے "رکاوٹوں" نے مسلمانوں کی فلسفیانہ ترقی کو روکا اور یہ "آزاد عقل" کے خلاف تھا۔
ہفتم: قرآن بطور آخری الٰہی پیغام، ہر زمانے اور ہر انسان کے لیے ہے، مگر اسے اس گہرائی کے ساتھ نہیں پڑھا گیا جس کی ضرورت تھی۔ بعض اسلامی متکلمین نے اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا۔ حقیقی معرفتِ خدا دل اور عقل دونوں سے جنم لیتی ہے، جو محض عقلی فلسفہ سے آگے کی چیز ہے۔
یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جن پر ڈاکٹر محمد یوسف موسی کی قرآن اور فلسفہ کے باہمی تعلق سے متعلق تھیوری قائم ہے۔/
4317795