۔ 2000ء میں لڑائی صرف لبنان میں تھی لیکن منصوبہ پورے مشرق وسطٰی کے لئے تھا، دشمن جدید مشرق وسطٰی کا خواب دیکھ رہے تھا

IQNA

۔ 2000ء میں لڑائی صرف لبنان میں تھی لیکن منصوبہ پورے مشرق وسطٰی کے لئے تھا، دشمن جدید مشرق وسطٰی کا خواب دیکھ رہے تھا

19:18 - May 26, 2014
خبر کا کوڈ: 1411401
بین الاقوامی گروپ:دہشت گرد شام اور علاقہ کی تقسیم کا خواب دیکھ رہا ہے

ایکنا نیوز- ۲۵ مئی  کی مناسبت سے سید مقاومت سید حسن نصر اللہ نے بنت جبیل میں اتوار کی رات اہم خطاب کیا، جس میں سیکرٹری جنرل حزب اللہ کا کہنا تھا کہ شام میں پورے مشرق وسطٰی کی تبدیلی کا منصوبہ بنایا گیا ہے، لیکن نشانہ صرف شام کو بنایا گیا، شام میں اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا، سر کاٹے جا رہے ہیں، گھروں کو تباہ کیا جا رہا ہے، حالانکہ کہ اسلامی تعلیمات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دشمن کے ساتھ لڑنے کی بہترین مثال 25 مئی 2000ء ہے، جب ہم نے غاصب صہیونی دشمن کو جنوبی لبنان سے مار بھگایا لیکن کوئی درخت، کوئی پتہ نہیں گرا، کسی کا نقصان نہیں ہوا۔ دشمن کے ساتھ لڑنے کی بہترین مثال یہ ہے۔ اور یہ دین اسلام ہے، یہ محمد عربی (ص) کی تعلیمات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم فوری طور پر لبنان کے صدر کا انتخاب چاہتے ہیں، ایسے شخص کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں جو سب کو ساتھ لیکر چلے، اور مقاومت کی تحریک کو نقصان نہ پہنچائے۔

سید حسن نصراللہ نےکہا۔ یہ مقاومت کی قوت دشمن کے مقابل اس سرزمین کے دفاع اور اسلام کے مقدسات کے دفاع کے لئے کافی ہے۔ آج کی یہ کامیابی اس فارمولے کی وجہ سے ہے جو مقاومت، قوم اور فوج نے اختیار کیا۔ علاقہ کی تمام تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت مقاومت کے پاس موجود ہے اور مقاومت دن رات اس کوشش میں ہے کہ طاقت کو بڑھا کر دشمن کے مقابل ڈٹا جائے، دشمن بھی اس بات کا برملا اعتراف کرچکا ہے۔ ہمارا مقابلہ دنیا کی طاقتور اسرائیلی فوج کے ساتھ ہے، ہمارا فرض ہے کہ ہم خود کو تیار کریں۔ ہمارا ایمان ہے کہ لبنان کے مسائل کا حل نکالیں، قیدیوں کے مسائل، فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ، دنیا اور لبنانی حکومت شیبا کی زمین بھول چکی ہے لیکن مقاومت اپنی زمین دشمن کو نہیں دے گی۔ اس عمل کو چھپایا نہیں جاسکتا، گذشتہ دنوں اسرائیلیوں نے تمام حدیں عبور کیں، ہماری سرحدیں پامال کیں۔ ہمارے کسانوں اور باغات پر حملہ کیا گیا، فصلوں کو تباہ کیا گیا، اور اس کے ساتھ ہماری فضائی حدود کو بھی پامال کیا گیا، ہم ہر جگہ ان کا مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔

شام کا تذکرہ کرتے ہیں، شام میں حزب اللہ کے مختلف اہداف تھے، حزب اللہ کے نظریہ نے علاقہ پر اپنے اثرات مرتب کئے۔ لبنان عراق اور شام میں یہ اثرات واضح ہوئے۔ میں اجمالاً بیان کرتا ہوں کہ حزب اللہ شام کی جنگ میں کیوں شریک ہوئی، شام مشرق وسطٰی کا قلب ہے، اور شام وہ واحد ملک ہے جو دو خلیجی ممالک اور ان کے حواریوں کے مقابل ڈٹ گیا۔ ہم شام کی قربانیاں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ شام میں دہشت گردوں کی فکر پہنچی، ہم شام میں گئے، تاکہ ہم اس سوچ کا قلع قمع کریں۔ یہ دہشت گرد شام اور علاقہ کی تقسیم کا خواب دیکھ رہا ہے اور تقسیم کی صورت میں ہر مسلح دہشت گرد گروہ کو ایک امارت ملنے والی تھی۔ یہ دشمن اس خطہ کو تباہ و برباد کرنے کے لئے یہاں آئے ہیں۔

یہ صہیونیوں اور صہیونی منصوبہ کے مقابل مختلف آپشن موجود تھے، جن میں ارجنٹائن، یوگنڈا اور یمن جیسے ممالک، جہاں وہ اپنے منصوبے پر عمل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے فلسطین کا انتخاب کیا، چونکہ یہ اس وقت بلاد شام کا دل تھا، صہیونی منصوبہ کے تحت اب دنیا کے صہیونی دہشت گرد لوگ شام میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ لوگ عرب حکمرانوں کے دستخط اور امداد لیکر آئے ہیں۔ تاکہ وہ مقاومت کے مرکز کو تباہ کرسکیں۔ اگر شام ان طاقتوں کے سامنے ثابت قدم نہ رہتا تو اس کے اثرات پورے منطقہ پر مرتب ہوتے اور شام کی ثابت قدمی نے ان مسلح گروہوں کو بے نقاب کیا، جو اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں اور اسرائیلی مداخلت کا پتہ چلا ہے۔ اب جب وہ بے نقاب و ناکام ہوئے تو منافقین خلق جیسے مسلح گروہ اسرائیل کے آلہ کار بنے اور اسرائیل کے لئے شام میں لڑ رہے ہیں۔

شام دشمن کے مقابل ڈٹا ہوا ہے اور کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔ میدانی حوالہ سے پیش قدمی کر رہا ہے اور اصلاحات بھی ہو رہی ہیں۔ اندرونی مصالحت میں بھی پیش رفت ہو رہی ہے، آج یہ دشمن انتخابات کو ناکام کرنے کے لئے گھناونا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ مسلح گروہ عوام کو دھمکانے کی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن عوام اس کے باوجود انتخابات کے لئے پرجوش ہیں۔ داعش نے انتخانات میں حصہ لینے والوں کا کافر قرار دے دیا ہے اور یہ جماعتیں عراق میں شیعہ سنی تمام کو انتخابات کی وجہ سے کافر کہہ چکی ہیں۔ شام پیش قدمی کر رہا ہے، چونکہ عوام ووٹ دینے کے لئے تیار ہے، باوجود اس کے دشمن انہیں مسلسل دھمکا رہا ہے۔ داعش اور النصرہ جیسوں کو کہنا چاہتا ہوں اگر آپ کے پاس اجتہاد ہے کہ ووٹ دینا حرام ہے تو اہل سنت علماء کی بات کو مان لو۔ 2000ء میں لڑائی صرف لبنان میں تھی لیکن منصوبہ پورے مشرق وسطٰی کے لئے تھا، دشمن جدید مشرق وسطٰی کا خواب دیکھ رہے تھا۔ ایران، شام اور مقاومت اس منصوبہ کے مقابل ڈٹ گئے اور آج شام میں ہونے والی کارروائیاں اسی منصوبہ کا حصہ ہیں، شام کے دوست شام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ لبنان کے دوستوں نے مقاومت کی مدد کی، اسی طرح آج شام کے دوست بھی اس کی مدد کریں گے اور شام کامیاب ہوگا، تین سال قبل کہا جاتا تھا کہ شام کی حکومت گر جاتی ہے لیکن شام کا ڈٹا رہنا فلسطین اور مقاومت کے لئے ہے، ایک دن آئے گا عرب ممالک شام کا شکریہ ادا کریں گے کہ شام ثابت قدم رہا۔

بشکریہ اسلام ٹایمز

1410885

ٹیگس: حسن ، نصراللہ ، لبنان
نظرات بینندگان
captcha