ایکنا نیوز- ادارہ ثقافت و تعلقات اسلامی کے گذشتہ روز کےاجلاس میں کینیا کے مذہبی لیڈروں سے نشست بعنوان «دہشت گردی کے خاتمے میں مذہبی گفتگو کا کردار» سے خطاب میں آیت اللہ تسخیری نے گفتگو کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ پہلے تصور کیا جاتا تھا کہ شاید گفتگو کا مقصد دوسروں کو اپنے دین کی طرف دعوت ہے لیکن بعد میں انہیں نشستوں اور ملاقاتوں میں ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ انسانی معاشروں کی بقاء اور انسانی حقوق کے لیے ادیان میں ایسی نشستوں کا اہتمام ضروری ہے
اسلامی امور میں رہبر معظم کے مشیر نے کہا : انقلاب اسلامی کے بعد سے گفتگو ہماری ترجیح بنی اور مذاہب،تمدن اور ادیان کے موضوعات کے ساتھ ہم نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا اور اسکے بہت اچھے ثمرات نکلے ہیں
آیتالله تسخیری نے آرتھوڈکس عیسائیوں کے ساتھ گفتگو کے حوالے سے کہا ۔ ادیان میں مشترکات بہت ہیں اور شدت پسندی کی نفی اور سب سے محبت اور شفقت ان مشترکات میں شامل ہیں
انہوں نے کہا کہ کہ دہشت گردی اور مقاومت میں واضح فرق ہے اور دہشت گردی کا مقابلہ ہی مقاومت ہے
قابل ذکر ہے کہ اس اجلاس کے پہلے روز آیتالله تسخیری،ادارہ برائے ثقافت اور اسلامی تعلقات کے سربراہ ابوذر ابراهیمیترکمان۔ انجیل الائنس کینیا کے جنرل سیکریٹری، ولینگتن ماتیسو۔ کینیا کے شیعہ لیڈر،آصف کریم۔ حکمت و فلسفہ فاونڈیشن کےسربراہ ؛ حجتالاسلام خسروپناه۔ سرکیسیان اور ارامنه کے اسقف اعظم؛ ادارہ برائے ثقافت اور اسلامی تعلقات کے تعلیمی اور تحقیقی معاون قهرمان سلیمانی، ادیان میں گفتگو مرکز کے سربراہ، علیمحمد حلمی۔ پارلیمنٹ کی اقتصادی کیمیٹی کے سربراہ حجتالاسلام غلامرضا مصباحیمقدم۔ زردشتی کیمونٹی کےخورشیدیان ۔آشوریان کیمونٹی کے یوناتن بتکلیا اور دیگر ایرانی اور افریقن مذہبی اسکالرز شریک تھے۔
اجلاس آج بھی قم شہر میں جاری رہے گا۔