ایکنا نیوز- شفقنا- روس اور چین اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا اپنے ان خلفاء کے ساتھ ملکر اگلے مرحلے میں ان کے لئے مسائل پیدا کرے گا۔ اس لئے انہوں نے ہر میدان میں شام کا ساتھ دیا ہے۔ جب بهی امریکہ اور اسکے خلفاء نے اقوام متحدہ کو شامی حکومت کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی تو ان دونوں ممالک نے مل کر ڈبل ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے امریکہ کا مقابلہ کیا۔ امریکہ اور اس کی جانب سے لگائی جانے والی تمام تر اقتصادی پابندیوں کے باوجود انہوں نے اقتصادی میدان میں شام کی مدد کی اور روس کی جانب سے شامی حکومت کو جدید ترین اسلحہ کی فراہمی اور ممکنہ امریکی کے حملوں کا راستہ روکنے کیلئے فوجی ماہرین اور جنگی وسائل کا بهیجنا، اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ کیونکہ وه جانتے ہیں کہ روس نے اگر انہیں یہاں شام میں نہ روکا تو خود روس دوسرا ہدف ہوگا اور روس کا امن و استقرار تباه ہوگا۔ روسی نائب وزیر خارجہ اولیگسیرو مولیٹوف کے بقول اس وقت شام اور عراق میں تقریباً 2200 مسلح روسی نژاد دہشت گرد داعش کی صفوں میں لڑ رہے ہیں اور روس اس تنطیم کے زعماء کے ان بیانات اور اعلان کو سیریس لے رہا ہے "کہ وه جہاد کو سنٹرل ایشاء اور قفقاز میں منتقل کرنے جا رہے ہیں۔" اور جب کچھ عرصہ پہلے اخوان المسلمین اور دیگر اسلامی متشدد جماعتوں نے اپنے میڈیا میں شور مچایا اور بهرپور پروپیگنڈہ کیا کہ چینی حکومت نے اووی گور مسلمانوں کے روزه رکهنے پر پابندی لگا دی ہے اور انہوں نے اپنے چینلز اور میگزین، اخباروں،سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر اووی گور مسلمانوں کی نصرت اور مدد کی ندائیں بلند کیں۔ پروپیگنڈہ کا انداز وہی تها جو عراق اور شام میں اپنایا گیا اور چینی (کفار) کیخلاف جنگ پر اکسایا گیا۔ یہ وہی امریکی حربہ اور منطق و سوچ ہے، جسے ہر جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسے یہی حربہ، منطق و سوچ عراق و شام اور ایران، یمن و روس کے خلاف استعمال ہوئی۔
نامور عالم دین علامہ شفقت شیرازی لکھتا ہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور اس کی جماعت جو کہ اخوان المسلمین کا حصہ ہے، انہوں نے اس پروپیگنڈہ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ قطر کے الجزیرہ چینل اور سعودی عرب کے العربیہ چینل نے بهی روٹین کے مطابق فتنہ پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ترکی کے دسیوں شہروں اور دیگر کئی ممالک میں مظاہرے ہوئے، انگلش اور چائنی زبان میں چائنی بادشاہت کے خاتمے کے نعرے بلند کئے گئے اور پاکستان تو اس میں پہلے ہی سبقت حاصل کرچکا تها، دارالحکومت اسلام آباد میں لال مسجد کے مجاہدین اور دیگر چند ایک جگہوں پر چینی سیاحوں پر حملہ آور ہوچکے تهے۔ امریکہ کے ہمنواء تمام چینلز نے چین کو اسلام دشمن ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی. اس پروپیگنڈہ کے نتیجے میں ترکی کے شہر استنبول میں موجود چینی ہوٹل پر حملہ ہوا اور ہوٹل کے مالک کو چینی باشندہ ہونے کے جرم میں خوب مارا اور انہیں بعد میں پتہ چلا کہ وه مار کهانے والا چینی شخص اوویگور مسلمان تها۔ اسی طرح سیاحوں کی ایک بس پر یہ سمجھ کر حملہ کیا گیا کہ وه چائینیز ہیں اور بعد میں پتہ چلا کہ وه ساوتھ کوریا کے سیاح تهے۔ اگر ماه رمضان میں بیگناه یمنی مسلمانوں کو قتل کیا جائے، میزائلوں سے انکے گھر بار ویران کر دیئے جائیں اور پاکستان، عراق، مصر، کویت، سعودیہ اور شام میں خودکش حملے ہوتے رہیں تو کسی مسلمان کی غیرت بیدار نہیں ہوتی اور کوئی آواز بلند نہیں کرتا، دنیا کا نام نہاد آزاد میڈیا تب گونگا کیوں ہوجاتا ہے۔؟ چین کی وزارت خارجہ نے ترکی کے اس رویہ پر ناراضگی کا اظہار کیا اور انقره سے اس متشدد موقف کی تفاصیل طلب کیں۔ مصر کے دارالحکومت قاہره میں چائنا کے سفیر (سونجآیگوه) نے دعوت افطار کی، جس کا اہتمام چینی سفارتخانے نے کیا تها، اس میں اس بات کی وضاحت پیش کی کہ یہ تمام تر معلومات کہ چین میں اوویگورز مسلمانوں پر روزه رکهنے کی پابندی ہے، یہ سب جھوٹ ہے، اس پروپیگنڈہ کی کوئی حقیقت نہیں، چینی حکومت دینی شعائر کا احترام کرتی ہے، چینی دستور میں درج ہے کہ ہر شہری کو عقیدتی لحاظ سے مکمل آزادی ہے، نہ حکومت اور نہ ہی کوئی فرد یا ادارہ لوگوں کو دین اختیار کرنے پر مجبور کرسکتا ہے اور نہ ہی دینی شعائر سے روک سکتا ہے۔
ابهی حالیہ میادین چینلز نے رپورٹ نشر کی ہے اور مقامی لوگوں سے معلومات حاصل کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گذشتہ ماه سوریہ کے شمال مغربی شہر جشر شغور جو کہ ترکی کے بارڈر پر واقع ہے، اس کے نواح میں ایک الزنبقہ نامی گاؤں ہے اور یہ گاؤں شامی ترکی بارڈر سے فقط 500 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، وہاں پر علوی مذہب کے لوگ آباد تھے۔ اس دہشتگردی اور جنگ کی بدولت وه نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اب مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ ترکی انٹیلی جنس کی سرپرستی اور داعش اور النصرہ کی مدد سے الزنبقہ نامی گاؤں میں 3500 چینی اووی گور دہشت گردوں کو بسایا جاچکا ہے۔ اس وقت چین اور پاکستان کا مشترکہ اقتصادی و تجارتی منصوبہ امریکا اور اس کے حلفاء کی آنکهوں کا کانٹا بن چکا ہے، یہ منصوبہ نہ فقط پاکستان اور چین کو اقتصادی طور پر مضبوط کرے گا بلکہ یہ پورے خطے میں اقتصادی اور تجارتی انقلاب لائیگا۔ دوسری طرف پاکستان اور چائنہ دشمن ممالک اس کو سبوتاز کرنے کے درپے ہیں۔ پاکستان کے اندر تکفیری گروه اور متشدد اسلامی جماعتیں، اسی طرح امریکہ اور اس کے حلفاء کے وفادار سیاستدان اور بیوروکریٹس بهی مشکلات ایجاد کرسکتے ہیں۔ دہشت گردی اور تکفیریت کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کو جو قوت بھی ڈائیورٹ کرنے کی کوشش کرے گی اور بیگناہوں اور دہشتگردوں سے ایک جیسا سلوک کرے گی، وه پاکستان، پاکستانی عوام، ہماری مسلح افواج اور شهداء کے خون سے خیانت کرے گی۔ ضرب عضب کی تکمیل اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے بغیر ہم بحرانوں سے نہیں نکل سکتے۔ پاکستانی حکمرانوں کو دوغلى پالیسی ترک کرنا ہوگی اور جو ممالک ان دہشت گردوں کی فکری و مالی مدد کر رہے ہیں، ہمیں انہیں پاکستان کا دشمن سمجهنا ہوگا، اور جو ممالک ہماری طرح ان تکفیری دہشتگردوں سے لڑ رہے ہیں، انکے ساتھ احترام متقابل کے قاعدہ کے تحت روابط کو مضبوط کرنا ہوگا۔