جریدة الامة و قلقیلیة ٹایمز کی رپورٹ کے مطابق لگتا ہے کہ فلسطینی نامور علما اور مجاہدین کے ساتھ ہمیشہ ایک مضبوط پہاڑ کی مانند سب کے لیے نمونہ رہیں گے جنمیں قابل ذکر خواتین بھی شامل ہیں۔
ان ہی میں ایک نائله صبری ہے جنہوں نے گیارہ جلدوں میں تفسیر قرآن کریم پیش کیا ہے۔
باریک بینی اور گہرے مفاہیم کے ساتھ یہ تفسیر فلسطینی کتابخانوں کے لیے ایک گرانقدر سرمایہ ہے۔
خاتون مفتی کے نام سے معروف نائلہ صبری ۱۹۴۴ کو مغربی کنارے میں پیدا ہوئی اور اعلی تعلیم کے بعد بیس سال تک تفسیر پرکام کیا اور اس حوالے سے ڈیڑھ سو تفسیر و احادیث کی کتب کا مطالعہ کیا۔
نائله صبری نے آخر کار«المبصر لنور القرآن» کے نام سے تفسیر سال ۱۹۹۷ کو امارات میں مکمل کیا اور سال ۲۰۰۳ میں بحرین میں یہ کتاب شائع ہوئی ، انکی دیگر کتابوں میں «أسماء الله الحسنى» ہے جو اردن میں شایع ہوئی ہے۔
نائله مرحوم شیخ هاشم حسن صبری جو الازهر سے پڑھے ہوئے ہیں ان کی چشم و چراغ ہے جو صوبہ قلقیلیه کے امام جماعت تھے اور مسجد العمری میں درس و تدریس سے وابستہ تھے۔
نائله، خطیب مسجد الاقصی شیخ ڈاکٹر عکرمه سعید صبری کی اہلیہ ہے۔
مفسر قرآن خاتون کا کہنا ہے کہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے وہ یونیورسٹی تعلیم مکمل نہ کرسکی مگر گھر میں موجود لایبریوں سے انہوں نے علمی تشنگی کی پیاس بجھائی۔
روزنامه فلسطینی الامه کے مطابق انہوں نے سالوں علم و معرفت کی راہ میں کوشش کی اور بلاآخر انہوں نے تفسیر لکھنے کا کارنامہ انجام دیا۔
انہوں نے متعدد علمی مقالات لکھے اور ثابت کیا کہ عالم ہونا صرف یونیورسٹی ڈگری تک محدود نہیں۔
ماہرین کے مطابق گھر کی مصروفیات اور مشکلات کے باوجود ایک خاتون کا اس طرح سے تفسیر لکھنا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
مسلم خواتین مجزہ کرسکتی ہیں
روزنامه الامة لکھتا ہے: نائلہ کا یہ کارنامہ ایک نمونہ بن سکتا ہے کہ دیگر خواتین بھی استقامت سے بڑے کاموں کا ارادہ کریں
عجیب بات ہے کہ ایک اسلامی ملک میں ایسی ماہر اور دانشور خواتین موجود ہیں جو اس قدر گمنام ہے کہ حتی بڑے بڑے علما بھی ان سے ناواقف ہیں مگر ایک عام آدمی کے لیے فلم بنائی جاتی ہے اور میڈیا شور مچاتا ہے۔
نائلہ سال ۱۹۸۲ میں انجمن خواتین قدس کی سربراہی کرچکی ہیں، وہ جمعیت هلال احمر قدس ک رکن رہی اور انجمن خواهران فلسطین الاینس کی رکن ، فلسطینی رائٹرز کی رکن اور میگزین زیتونه بلدنا البیره کی مصنفین بورڑ کی رکن رہی ہے۔
مسجد الاقصی میں تبلغ کی خدمات انجام دے چکی ہے اور سال ۱۹۹۰ سے برازیل، رومانیہ، جنوبی افریقہ، انڈیا، جنوبی کوریا، امریکہ، برطانیہ، سوئیزرلینڈ، ترکی ، بوسنیا، فرانس، سوئیڈن، ڈنمارک، کینیڈا اور جرمنی میں مختلف سیمینارز میں شرکت کرچکی ہے۔
سال ۱۹۸۰ سے ۱۹۹۰ تک ریڈیو امان سے احادیث پروگرام پیش کرتی رہے اور سال ۲۰۰۳ سے امارات، عمان، بحرین، قطر، مراکش، لیبیا، یمن، سعودی اور مصر کے سیمناروں میں قرآنی تفسیر پیش کرتی رہی ہیں۔
نائله صبری تفسیرکا المبصر لکھنے کے حوالے سے کہنا ہے : سال ۱۹۸۲ سے ایک منظم اور حروف تہجی کے ترتیب کے ساتھ تفسیر لکھنا شروع کیا۔
صبری کا کہنا تھا کہ تفسیر المبصر کو دیگر قرآنی آیات و تفاسیر اور احادیث کی روشنی میں مدنظر رکھتے ہوئے تحریر کرنا شروع کیا۔
فلسطینی مفسر خاتون کا کہنا تھا کہ تفسیر کے آغاز میں کافی مشکلات درپیش تھیں جنمیں سے ایک تفسیر اور موجودہ معاشرتی صورتحال میں ہم آہنگی کا فقدان تھا بالخصوص سورہ آل عمران اور سورہ بقرہ میں وافر ایسی آیات ہیں جو احکام سے متعلق ہیں۔
صبری کا کہنا تھا کہ ان آیات کی تفسیر کے لیے انہوں نے تفاسیر، فقہ اور احادیث کی کتابوں کا سیر حاصل مطالعہ کیا تاکہ قرآن کا علمی معجزہ درست انداز میں پیش کرسکوں۔
صبری کا کہنا تھا کہ تفسیر کے آغاز میں کافی لوگوں نے دل شکنی کی اور کوشش کی کہ میں یہ تفسیر نہ لکھوں مگر جیسے ہی پہلے پارے کی تفسیر مکمل ہوئی وہی لوگ سب سے پہلے آئے اور تفسیر طلب کی کیونکہ طرز تحریر سے وہ حیرت زدہ ہوگیے تھے مگر کچھ لوگوں نے انکی حوصلہ افزائی کی جنمیں ڈاکٹر اسماعیل المغاربه شامل ہے جنہوں نے انکی کتاب کا مقدمہ لکھا اور اسی طرح انکے شوہر خطیب مسجد الاقصی شیخ عکرمه صبری بھی انکی معاونت میں قابل ذکر ہے۔/
ترجمہ رپورٹ: الهام مؤذنی