ایکنا نیوز- «امر به معروف» یعنی دوسروں کو خوبی و نیکی کی طرف ہدایت و رہنمائی کرنا اور
«نهی از منکر» یعنی دوسروں کو برائی سے روکنا ہے، یہ دوسروں کی ذاتی زندگی میں مداخلت کرنا ہرگز نہیں بلکہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے جس سے اجتماعی ذمہ داری کے احساس کو تقویت ملتی ہے۔
اسلام امر بالمعروف اور نہی از منکر پر تاکید اس وجہ سے کرتا ہے کہ انسان کی فکری ترقی کی راہ ہموار کرے کیونکہ اگر معاشرے میں لوگ ایکدوسرے سے لاتعلق رہیں گے تو اس معاشرے کو فساد و بربادی تباہ کرے گی جس میں سے ایک بدنظمی اور امن و امان میں خلل ہے۔
امر به معروف و نهی از منکر قرآن کریم کے رو سے معاشرے میں اجتماعی ہمبستگی کا عامل ہے کہ معاشرے میں لوگ ایکدوسرے کے بارے میں ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں۔
خداوند کریم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: «وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ:
اور مرد مومن و عورت مومنہ ایکدوسرے کے دوست ہیں اور ایکدوسرے کو پسندیدہ کاموں کی ترغیب دیتے ہیں اور ناپسندیدہ کاموں سے روکتے ہیں» (توبه/ 71).
خوبی کی طرف ترغیب دینا اور برائی سے روکنا ایسا فعل ہے جس سے اجمتاعی وابستگی میں اضافہ ہوتاہے اور خود اپنی اصلاح ہوتی ہے۔
قرآن کریم نیز ایسے افراد کو جو امر به معروف کرتا ہے مگر اپنے کردار کی طرف توجہ نہیں کرتا اس کے بارے میں کہتا ہے: «أَ تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنْفُسَکمْ: کیا لوگوں کی نیکی کی طرف دعوت دیتے ہو اور اپنی ذات کو بھول جاتے ہو». (بقره/ 44).