ایکنا- ہندوستان اردو ٹائمز مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال میں علامہ اقبال ؔکے نام پر منسوب ’’ اقبال میدان‘‘ کے نام بدلنے کے حوالے سے بھوپال بی جے پی کے کارگزاری رکن سریندر شرما نے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو خط لکھاہے۔جس میں انہوں نے ’’اقبال میدان ‘‘کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔جس کی مدھیہ پردیش کے ہی اُردو داں اور دانشور نہیں بلکہ پورے بھارت کی عوام پر زور لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔بی جے پی کارکن سریندر شرما جی وہی کام کررہے ہیں جو ان کی پارٹی اقتدار میں آنے کے بعد سے کررہی ہے۔اقبال کے حوالے سے لکھے گئے خط سے ان کی نااہلی ظاہر ہوتی ہے ۔ ان کو علامہ اقبالؔ شخصیت اور خدمات جو بھارت کی آزادی کے لئے انجام دیئے ہیںاس کے بارے میں پڑھنا چاہئے ۔
آج بھارت آزادی کا 75ویں سالگرہ منارہا ہے ۔لیکن بدقسمتی سے جنگ آزادی کے مجاہدین نے جس بھارت کا خواب دیکھا تھا ،جس کے لئے ہنستے ہنستے پھانسی کے تختہ پر جھول گئے،قیدوبند کی سزائیں کاٹیں،گولیوں کے نشانہ بنے وہ آج بھی ادھورا ہے۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف بھارت کی آزادی اس لئے چاہتے تھے کہ وہ ایسا دیش بنائیں جہاں رنگ روپ،امیر غریب ،ذات پات ،مذہب کا کوئی بھیدبھائو نہ ہوسبھی آپس میں پرامن طریقے سے اپنی زندگی بسر کرے۔لیکن آج ان سیاست دانوں نے بھارت کی آزادی کے لئے اپنی قربانی دینے والے مجاہدین کو بھی اپنی سیاسی فائدے کے لئے بانٹنے میں لگے ہیں۔جس آزادی کے لئے ہندو ۔مسلم۔سیکھ۔عیسائی تمام مذاہب کے لوگ ایک صف میں کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہوئے اور انگریزوں کو بھارت سے بھاگنے میں پر مجبور کردیئے۔
آج انہیں انگریزوں کی طرح پھر سے دیش میں’’پھوٹ ڈالو‘‘ ،’’بانٹو اور راج کرو‘‘”Devide&Rule”اورذات پات کی سیاست کرنے میں لگے ہیں۔جس طرح انگریزوں نے بھارتیوں کو آپس میں ذات پات میں الجھاکر حکومت کرتے رہے ،یہ بھی اسی کے راستے پر چلنے لگے ہیں۔اکثریتوں کو خوش کرنے کے لئے اقلیتوں کو دبانے ،اقلیتوں پر ظلم وزیادتی کرنے میں لگے ہیں۔کہیں شہروں کو نام بدلا جارہا ہے تو کہیں اقلیتوں کے گھر پر بلڈوزر چلایا جارہا ہے ۔اب سلسلہ مزید آگے بڑھتے ہوئے علامہ اقبالؔ کے نام پر جاپہنچا ہے۔
غورطلب ہے کہ علامہ اقبال کی پیدائش 9 نومبر 1877کومتحدہ بھارت کے سیالکوٹ میں ہوئی اور وفات بھی متحدہ بھارت کے لاہور میں 21 اپریل 1938 میںہوئی۔ اس وقت تک پاکستان کا نام و نشان نہ تھا۔ پاکستان کاقیام عمل میں کب ، کیوں اورکیسے آیا یہ جگ ظاہر ہے۔ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان بننے کی وجہ کیا ہے ؟ اس کے بنانے میں کس کا ہاتھ ہے؟ یہ یہاں پرمدعہ نہیں ہے۔
علامہ اقبال ؔکسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اقبالؔ تو بہت بڑے محب وطن تھے۔ انہوں نے ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ جیسا ترانہ لکھا۔ جو آج بھی تعلیمی اداروں اور سرکاری تقاریب میں گونجتا ہے اور حب الوطنی کے جذبے سے معمور ایسا ترانہ آج تک نہیں لکھا جا سکا ۔اس ترانہ کے سننے اور جاننے کے بعد منشی پریم جی جیسے مہان لیکھک(مضمون نگار) علامہ اقبالؔ سے ملاقات کے لئے کانپور سے لاہور گئے ان کا شکریہ اداکیا، کیونکہ یہ وہ ترانہ ہے جس کا آج تک کوئی متبادل (ثانی) نہیں لکھ سکا ہے۔اقبالؔ نے تحریک آزادی میں مختلف پہلوؤں سے بھارتیوں کو بیدار کرنے کی کوششیں کیں ۔ اس کے ساتھ انہوں نے بھارت کی عظمت کے گیت بھی گائے۔ اقبالؔ نے ہمیشہ عوام کو اتحاد کی دعوت دی اور فرنگی استحصال کی سازشوں سے باہر نکلنے کے لئے جھنجھوڑا۔