ایکنا نیوز- اگرچہ ایمان کا راستہ ہموار اور روشن ہے تاہم اس راہ میں مشکلات کا آنا حتمی ہے تاہم اس حوالے سے قرآن راہ حل پیش کرتا ہے۔
اس راہ میں اہل ایمان کو درپیش ایک مشکل میں سے برے چاہنے والوں کا حائل ہونا ہے۔
عبارت «دشمن» در تمام ان مخالفوں کا ذکر ہے جو راستے میں رکاوٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
«هَا أَنْتُمْ أُولَاءِ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ ...؛ تم ایسے ہو کہ ان کو دوست رکھتے ہو مگر وہ تم کو پسند نہیں کرتے»(آل عمران، 119).
دشمن کبھی دوست کے لباس میں آجاتا ہے اور خیرخواہی کا دعوی کرتا ہے. کبھی ممکن ہے کہ یہ انجیل و تورات پر ظاہری طور پر ایمان رکھنے کا دعوی کرتا ہو مگر انکی ذات میں تمھاری دشمنی چھپی ہے۔
رب العزت آرام کی دعوت دیتے ہویے خبردار کرتا ہے «جو یہ کرتے ہیں خدا ان پر آگاہ ہے»، پس پریشانی کی بات نہیں صرف جو تمھارے ذمہ ہے وہ «استقامت و صبر» کرنا ہے:
إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ؛ اگرتم کو خیر و نیکی پہنچے تو ناراض ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی برا حادثہ پیش آئے تو یہ خوش ہوجاتے ہیں، (لیکن) اگر (انکے مقابل) صبر و اسقامت سے کام لو تو انکے نقشے (خیانت کاری کے) تمھیں نقصان نہیں پہنچا سکتے خدا جو یہ انجام دیتے ہیں ان سے آگاہ ہے (آل عمران، ۱۲۰)
نکات
اس آیت میں دوست و دشمن کی شناخت کا طریقہ بتایا گیا ہے جو تمھارے نسبت ری ایکشن سے واضح ہوتا ہے.
اس سے پہلئ والی آیات میں مسلمانوں کو سفارش کی جاتی ہے کہ ان کو مددگار نہ بنائے اور نہ دوست بنائے، اس آیت میں کہا جاتا ہے، اس رویے کا بڑا سخت نقصان ہوسکتا ہے جو تمھارے خلاف سازش کرتا ہے لہذا تمھیں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ انکی سازش کامیاب نہ ہو۔
پیغامات
1- حسد اس قدر ہے کہ تمھاری معمولی کامیابی بھی انکو ناگوار گزرتا ہے. «إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ»
2- دشمن ہم غلبہ اس وقت پاسکتا ہے جو ہم ان سے لالچ یا امید رکھے یا صبر و تقوی کو چھوڑ دیں وگرنہ راہ حل یہ ہے۔ «إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا لا يَضُرُّكُمْ»
3- ہم سے حسد کرنے والوں کے مقابل راہ حل یہ ہے کہ . «إِنْ تَصْبِرُوا وَ تَتَّقُوا لا يَضُرُّكُمْ»
4- رب العزت دشمن کی نشانی بتا کر ہمیں حوصلہ دیتا ہے اور بیدار کرتا ہے، «إِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ ... لا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ»