ایکنا نیوز- خبررساں ادارے القدس العربی نیوز کے مطابق فارمیسسٹ آمیت آپادھی، انڈیا میں مسلم مخالف پروپگنڈوں کا ایک چھوٹا نمونہ ہے جو مجازی دنیا میں مسلم مخالف پروپگنڈوں میں مصروف عمل ہے۔ مسلمان ہمسایوں کے بچے زیادہ ہیں لہذا ہندوں عورتوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ بچے پیدا کریں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے مذکورہ سوشل ایکٹویسٹ مسلم مخالف نادرست ڈیٹا وایرل کرکے کافی فالوور جمع کرچکا ہے، وہ دعوی کرتا ہے کہ انڈیا ایک مسلم ملک بننے کی طرف جارہا ہے اور انڈیا کو اس پر غور کرنا چاہئے۔
آپادھی جو اترپردیش سے ایک فیس بک پیچ کا ایڈمن ہے اپن فالوور کو تاکید کرتا ہے کہ مسلمانوں سے مقابلے کے لیے زیادہ بچے پیدا کریں وگرنہ یہ ملک اور ہندو مذہب کے لیے مستقبل میں خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
مذکور ایکٹویسٹ ۴۰۰۰۰ فالوور کے ساتھ یر روز ایک مسلم مخالف پوسٹ شائع کرتا ہے۔
اپریل میں وہ ایک پوسٹ میں خبردار کرچکا ہے کہ «مسلمان اپنی آبادی دوگنا کرکے خطرہ بن رہا ہے»
ڈیڑھ ارب کی لگ بھگ انڈین آبادی میں ۲۱۰ ملین مسلمان آباد ہیں تاہم یہاں آبادی میں اضافے کا گراف بلا تفریق گھٹتا جارہا ہے۔
سروے کے مطابق ہندو خواتین میں بچہ پیدا کرنے کا ریشو ۲ فیصد ہے جب کہ مسلم خواتین میں یہ ریشو ۲,۳ فیصد ہے جس پر ہندو شدت پسندوں کی جانب سے واویلا کیا جارہا ہے۔
پیو ریسرچ مرکز کے مطابق سال ۲۰۵۰ میں مسلم آبادی ۳۱۱ ملین تک پہنچ سکتی ہے اور دعووں کے باوجود اس قدر بڑی آبادی میں مسلمان اقلیت ہی رہے گا۔
مسلم مخالف تحریک اور شدت پسند ہندو
ہندو شدت پسندوں کی طرح بعض دیگر ممالک میں بھی مسلم آبادی میں اضافے کا واویلا کیا جاتا ہے جنمیں فرانس پیش پیش ہے۔
ہندوستان میں آبادی میں اضافہ روکنے پر قانون سازی کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں تاہم اعتراضات کے بعد یہ سلسلہ کامیاب نہ ہوسکا ہے تاہم اب چین کی آبادی سے ہندوستان کی آبادی بڑھنے کے بعد دوبارہ پیش کیا جارہا ہے۔
ہندو شدت پسند رہنما اشوار لعل، نے کہا تھا کہ ہندو ایک بار شادی کرتا ہے اور دو بچہ پیدا کرتا ہے مگر مسلمان چار شادی کرکے کافی بچے پیدا کرلیتا ہے اور اکیلا کرکٹ ٹیم بنا سکتا ہے۔
ہندو شدت پسند دعوی کرتا ہے کہ مسلمان بہت جلد اکثریت میں بدل جائے گا لہذا ہندو خواتین زیادہ بچے پیدا کریں تاہم سروے میں کہا گیا ہے کہ تمام بتائے گیے ڈیٹا نادرست ہے اور ایسا کوئی مسئلہ موجود نہیں۔/
4139098