ایکنا- قرآن کریم کا بیاسیواں سورہ «انفطار» کے نام سے ہے جسمیں 19 آیات موجود ہے اور یہ سورہ قرآن کریم کے تیسویں پارے میں ہے۔ سورہ انفطار مکی سورہ ہے جو ترتیب نزول کے حوالے سے بیاسیویں نمبر پر قلب رسول گرامی اسلام (ص) پر اترا ہے۔
لفظ «انفطار» کا معنی شگاف پڑنا اور شگاف کرنا ہے. اس سورے میں آسمان کے اندر شگاف یو سوراخ ہونے کا ہے جو قیامت کے اثر سے ہوگا۔
اس سورے کو «انفطار» کا نام دیا گیا ہے کیونکہ پہلی آیت میں یہ لفظ آیا ہے۔ سوره انفطار میں وقوع قیامت، شرایط اور نشانیوں کی بات ہوئی ہے اور نیک کردار اور فجار یعنی برے لوگوں کے انجام ک بات ہوئی ہے۔
سوره انفطار میں قیامت کے وقوع اور شرایط و اور نشانیوں اور آخر زمانے میں ہونے کی بات ہوئی ہے اور اس کے ہمراہ خدا کی نعمتوں کا ذکر ہے و تمام ہستی میں نمایاں ہیں اور انسانوں کو دو گروپ یعنی اچھوں اور بروں میں تقسیم کیا گیا ہے جنکے اعمال ریکارڈ یا درج کیے جاتے ہیں۔
شروع میں قیامت کی چار نشانیوں کی بات ہوئی ہے اور پھر غافل اور مغرور انسان کی طرف اشارہ ہوا ہے جو کسقدر خود سے راضی اور حقیقت سے بے خبر ہوتا ہے۔
روز قیامت میں اچھے لوگوں کے حالات جو نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں اور پھر انکے مقابلے بدکرداروں کی گرفتاری کی باتی کی جاتی ہے۔
ان آیات میں آیت 6 میں کہا جاتا ہے: «يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ: اے انسان، کس چیز نے تمھیں رب کے برابر مغرور کردیا ہے؟»
اس آیت کا مقصد انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہے جو نعمتوں کی وجہ سے مغرور ہوچکا ہے۔ رسول اسلام (ص) نے اس آیت کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ «انسان کے جہل نے اسے مغرور بنایا ہے».