کسی بھی اخلاقی عمل کو ایک ایسی عادت سمجھا جا سکتا ہے جو فریبی چشمہ کی طرح ہو، اور جس کا درست یا غلط ہونا کسی شخص کو سچائی سے قریب یا دور کر دیتا ہے۔ تکبر ان اخلاقی برائیوں میں سے ہے جو انسان کو حق سے روکتا ہے اور دنیا و آخرت میں رسوائی کا باعث بنتا ہے۔
قرآن میں جن اخلاقی اعمال کی مذمت کی گئی ہے ان میں سے ایک غرور ہے۔ غرور کے لغوی معنی ہیں: ہر وہ چیز جو انسان کو فریب دے اور اسے غفلت میں ڈال جائے۔ خواہ وہ مال و منصب ہو یا ہوس اور شیطان۔
تکبر کو پہلی اخلاقی برائی قرار دیا جا سکتا ہے جس کا اثر تخلیق پر پڑا، ابلیس وہ پہلا شخص تھا کہ جب اسے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو اس نے اس حکم سے انکار کر دیا اور اس کی نافرمانی کی وجہ اس کی جنس یعنی آگ کی آدم کی جنس (مٹی) برتری کا وہم تھا۔
قَالَ انَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِى مِنْ نَارٍ وَ خَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ:
شیطان نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے! (اعراف: 12)
آدم اور حوا اکیلے نہیں تھے جو تیر تکبر سے زخمی ہوئے تھے، جیسا کہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ دوسری قومیں بھی ہیں جو اس گناہ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ نوح علیہ السلام کی قوم بھی انہی قوموں میں سے تھی:
"فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْيِ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَاذِبِينَ:
ان کی قوم کے کافر امیروں نے (ان کے جواب میں) کہا: تم ہمیں ہمارے جیسا انسان ہی دکھائی دیتے ہو! اور جو تمہاری پیروی کرتے ہیں وہ سوائے سادہ لوح نیچ کے اور کچھ نہیں لگتے ہیں۔ اور ہمیں تمہاری کوئی فضیلت نہیں دکھائی دیتی۔ بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو۔‘‘ (ہود:27)۔
عام طور پر لوگ اپنی عقل کی بنا پر ممکنہ نقصان سے بچتے ہیں، لیکن یہ مغرور لوگ، اگرچہ انہوں نے نوح کے معجزات میں سچائی کی نشانیاں دیکھی تھیں اور عذاب الٰہی کا امکان بہت مضبوط تھا، لیکن انہوں نے نہ صرف توجہ نہیں دی، بلکہ حضرت نوح کو ترغیب دی کہ وہ ان کے لیےعذاب الہی! کی بددعا کریں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں متکبروں کا انجام بیان کیا ہے تاکہ انسان اس اخلاقی گناہ سے حتی الامکان بچ سکیں:
وَلَٰكِنَّكُمْ فَتَنْتُمْ أَنْفُسَكُمْ وَتَرَبَّصْتُمْ وَارْتَبْتُمْ وَغَرَّتْكُمُ الْأَمَانِيُّ حَتَّى جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ وَغَرَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ
تم نے (خدا کے ساتھ منافقت کر کے) اپنے آپ کو فتنہ میں ڈال دیا اور تم نے (مومنوں کی ہلاکت کی) توقع کی اور تم (دین کے معاملے میں) شک میں مبتلا تھے اور تم کو دنیا کی خواہشات نے دھوکے میں رکھا یہاں تک کہ خدا کا حکم (یعنی موت)آگیا۔ اور فریبی شیطان نے تمہیں بے پروا اور مغرور بنا دیا۔
جب کوئی شخص غرور میں مبتلا ہو جائے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ ان میں سے جن بھی صفات پر وہ ناز کرتا ہے اور جس سے وہ اپنی عزت اور مرتبے کو دوسروں سے بلند سمجھتا ہے، اللہ کے پاس وہ صفت لامحدود ہے، اس لیے اس غرور اور انا کا کوئی تک نہیں ہے۔