قرآن کے مبارک ہونے کا کیا مطلب ہے؟

IQNA

قرآن کیا ہے؟ / 11

قرآن کے مبارک ہونے کا کیا مطلب ہے؟

5:55 - July 02, 2023
خبر کا کوڈ: 3514554
ایکنا تھران: قرآنی کی تعریف میں ایک تعریف قرآن کا مبارک ہونا بتایا گیا ہے تاہم اس سے کیا مراد ہے اور کیوں مبارک کہا گیا ہے؟

ایکنا نیوز- رب العزت آیت 50 سوره انبیاء میں قرآن کو مبارک کتاب قرار دیتا ہے:« وَ هذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ أَ فَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُون‏ ؛ اور یہ (قرآن) مبارک ذکر ہے جو (آپ پر) نازل کیا اور کیا تم انکار کرتے ہو؟!» (انبیاء:50)

کسی چیز کے مبارک ہونے کا مطلب ہے کہ اس میں خیر کثیر اور وافر منافع موجود ہیں اور اللہ تعالی نے مختلف چیزوں مثلا، بارش، قرآن اور ۔۔۔ کو مبارک قرار دیا ہے۔ یہ فایدہ مبارک کہا گیا ہے جو مادی اور روحانی دونوں امور پر محیط ہے۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ قرآن کریم کس قدر برکت اور  آگاہی کا باعث ہے کافی ہے کہ ہم جزیرہ عرب میں ان لوگوں کو دیکھے کہ قرآن کے نزول سے قبل کیسے تھے  جھالت اور بربریت میں زندگی گزارنے والے تھے مگر نزول قرآن کے بعد وہ دنیا کے لیے نمونہ بنیں۔

امام علی (عليه السلام) نے اس دور کے عربوں کی حالت زار مختلف مثالوں سے پیش کیا ہے؛ کبھی مثال دیتا ہے کہ وہ ایک بھنور میں پھنسے لوگ تھے اور مدد کے لئے پکار رہے تھے اور کبھی کہتے کہ وہ ان حیوانوں کی طرحے تھے جنکے لگام فاسد لوگوں کے ہاتھوں میں تھے جو انہیں ایک خطرناک کھائی کی طرف ہانک رہے تھے۔

دور جاہلیت میں لوگ مختلف کام انجام دیتے تھے جیسے:

  1. معمولی ترین باتوں پر طولانی جنگ کرتے، کبھی پانی پلانے پر جھگڑا کبھی گھوڑا نکل جانے پر جھگڑا والی بات، ان جنگوں کو وہ «ایام‌العرب» کہتے جو بعض اوقات چالیس سال تک جاری رہتی۔
  2. بدترین وحشی گری اور بربریت کے ساتھ زندگی کرتے. مثال کے طور پر اگر گائے پانی نہ پیتا تو کہتے کہ بیل کے سنگ میں جن چھپا ہے اور اسکو مارتے۔
  3. عورتوں کا کوئی احترام نہ تھا انکو بدبختی کی علامت قرار دیتے اور حتی انکو زندہ قبروں میں دفناتے تھے۔

رسول گرامی، حضرت محمد(ص) نے تعلیمات سے انکو حیرت انگیز طور پر بدل دیا، قرآن کی اس دور میں بعض نصیحیتں:

  1. ظلم سے منع : «وَ سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُواْ أَىَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُون؛ جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ جلد جان لیں گے اور سرنگون ہوں گے۔» (شعراء:227)

2.صداقت اور سچائی پر تاکید:« ْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَ كُونُواْ مَعَ الصَّادِقِين ؛ خدا کا لحاظ کیجیے اور سچوں کا ساتھ دیں» (توبه:119)

3.عدل و انصاف پر تاکید:« وَ إِذَا حَكَمْتُم بَينْ‏ النَّاسِ أَن تحَكُمُواْ بِالْعَدْلِ ؛ جب لوگوں میں فیصلہ کرتے ہو تو عدل سے کیجیے» (نساء:58)

جب تک ہم دور جاہلیت سے پوری طرح آشنا نہ ہوں گے ہم رسول اسلام (ص) اور بابرکت قرآن کی اہمیت سے آشنا نہیں ہوسکتے./

 

 

نظرات بینندگان
captcha