ایکنا نیوز- رب العزت آیت 50 سوره انبیاء میں قرآن کو مبارک کتاب قرار دیتا ہے:« وَ هذا ذِكْرٌ مُبارَكٌ أَنْزَلْناهُ أَ فَأَنْتُمْ لَهُ مُنْكِرُون ؛ اور یہ (قرآن) مبارک ذکر ہے جو (آپ پر) نازل کیا اور کیا تم انکار کرتے ہو؟!» (انبیاء:50)
کسی چیز کے مبارک ہونے کا مطلب ہے کہ اس میں خیر کثیر اور وافر منافع موجود ہیں اور اللہ تعالی نے مختلف چیزوں مثلا، بارش، قرآن اور ۔۔۔ کو مبارک قرار دیا ہے۔ یہ فایدہ مبارک کہا گیا ہے جو مادی اور روحانی دونوں امور پر محیط ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ قرآن کریم کس قدر برکت اور آگاہی کا باعث ہے کافی ہے کہ ہم جزیرہ عرب میں ان لوگوں کو دیکھے کہ قرآن کے نزول سے قبل کیسے تھے جھالت اور بربریت میں زندگی گزارنے والے تھے مگر نزول قرآن کے بعد وہ دنیا کے لیے نمونہ بنیں۔
امام علی (عليه السلام) نے اس دور کے عربوں کی حالت زار مختلف مثالوں سے پیش کیا ہے؛ کبھی مثال دیتا ہے کہ وہ ایک بھنور میں پھنسے لوگ تھے اور مدد کے لئے پکار رہے تھے اور کبھی کہتے کہ وہ ان حیوانوں کی طرحے تھے جنکے لگام فاسد لوگوں کے ہاتھوں میں تھے جو انہیں ایک خطرناک کھائی کی طرف ہانک رہے تھے۔
دور جاہلیت میں لوگ مختلف کام انجام دیتے تھے جیسے:
رسول گرامی، حضرت محمد(ص) نے تعلیمات سے انکو حیرت انگیز طور پر بدل دیا، قرآن کی اس دور میں بعض نصیحیتں:
2.صداقت اور سچائی پر تاکید:« ْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَ كُونُواْ مَعَ الصَّادِقِين ؛ خدا کا لحاظ کیجیے اور سچوں کا ساتھ دیں» (توبه:119)
3.عدل و انصاف پر تاکید:« وَ إِذَا حَكَمْتُم بَينْ النَّاسِ أَن تحَكُمُواْ بِالْعَدْلِ ؛ جب لوگوں میں فیصلہ کرتے ہو تو عدل سے کیجیے» (نساء:58)
جب تک ہم دور جاہلیت سے پوری طرح آشنا نہ ہوں گے ہم رسول اسلام (ص) اور بابرکت قرآن کی اہمیت سے آشنا نہیں ہوسکتے./