ایکنا نیوز- حقیقت کو چھپانے اور باطل کو کامیاب کرنے کا ایک طریقہ بیجا جھگڑا یا کج بحثی ہے۔
منفی انداز میں بحث یا جھگڑا دو صورتوں میں ممکن ہے پہلا یہ دونوں حقیقت تک پہنچنا چاہتے ہو اور دوسری صورت کم از کم ایک فریق درست علم نہیں رکھتا اور جھوٹ سے کامیاب ہونا چاہتا ہے۔
اسلام میں اس قسم کے جھگڑے یا بحث کی شدید مذمت کی گیی ہے اور اس کو گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس میں تعصب کو عمل دخل حاصل ہے اور اس میں صرف برتری کی کوشش کی جاتی ہے۔
قرآنی آیات میں اس حوالے سے کافی آیات موجود ہیں:
«وَ لَقَدْ صَرَّفْنا فِى هذا الْقُرآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَ كانَ الْانْسانُ اكْثَرَ شَىْءٍ جَدَلًا؛ ہم نے اس قرآن میں کافی قسم قسم کی مثالیں پیش کی ہیں (اور ہدایت کے لیے تاریخ سے لرزہ خیز داستانیں نقل کی گیی ہیں) مگر اکثر لوگ (حق کے مقابل) فضول بحث کرتا ہے اور اپنے اوپر راستہ بند کرلیتا ہے»(کهف: 54).
اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ اکثر تربيت نايافته لوگ صرف برتری دکھانے کے لیے بحث و جھگڑے میں پڑتے ہیں اور اپنے پر ہدایت کا راستہ بند کرتا ہے۔
«وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يُجادِلُ فِى اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَ يَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطانٍ مَرِيد؛ لوگوں کا ایک گروپ، بغیر علم و دانش کے، خدا بارے جھگڑتا ہے؛ اور سرکش شیطان کی پیروی کرتا ہے.» (حج: 3): دلچسپ بات یہ ہے کہ ان افراد کو شیطان کا پیرو کہا گیا ہے اور انکا راستہ شیطان راستہ کہا گیا ہے اور شیطان جھگڑنے والوں میں نفوذ کرتا ہے اور انکو اپنے راستے پر لیجاتا ہے، شيطان کو «مَرِيدٍ»(يعنى سرکش) کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جھگڑنے والے سرکشوں کی صف میں قرار پاتے ہیں۔
وَ انَّ الشَّياطِينَ لَيُوحُونَ الى اوْلِيائِهِمْ لِيُجادِلُوكُمْ وَ انْ اطَعْتُمُوهُمْ انَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ؛ اور شیطان اپنے پیروکا خفیہ چیزیں القا کرتا ہے، تاکہ تم سے جھگڑے؛ اگر تم اسکی اطاعت کرو گے تو تم مشرک قرار پاوگے!» (انعام: 121): انکا باطل جھگڑا یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اگر ہم مردہ حیوان کا گوشت کھاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے اسکو مارا ہے اور جس حیوان کو ہم مارتے ہیں یہ اس سے افضل ہے، تاہم وہ حرام گوشت کھانے پر مصر تھے۔
یہ باطل بحث اس وجہ سے ہے کہ وہ مردہ خؤری کرتا ہے اور یہ چیز شیطان انکو القا کرتا ہے تاکہ وہ کلام حق کے مقابل جھگڑ سکے، اور اس طرح وہ مردار گوشت کو صاف گوشت کے مقابل قرار دیتے اور اسکو برتر شمار کرتے! اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے جھگڑے شیطانی ہیں۔/