ایکنا نیوز- ایک انداز تربیت جس سے اکثر بزرگان استفادہ کرتے رہیں، وہ ہے سوال و جواب کا طریقہ۔ اس طریقے سے مخاطب کے ضمیر کو جگانے کا حربہ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ہر جاہل ترین افراد کو بھی متاثر کیا جاسکے۔
اس طریقے میں شاگرد یا زیر تربیت افراد کے جذبے کو متحرک کرنا چاہیے اور پہلے اس کو اسکی جہالت بارے آگاہ کرنا چاہیے اور اس کے لیے سوال جواب کا انداز کافی اہم ہے تاکہ اس کو اس کی فطرت کی طرف متوجہ کرسکے۔
حضرت موسی (ع) جو ایک عظیم اور اولوالعزم نبی ہے انکے بارے میں آیات قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس بارے سوال جواب کرتے تھے:
اگر میں واضح اور روشن دلیل لاو اور رسالت کے لیے معجزہ پیش کرو کیا پھر بھی میری دعوت کا انکار کروگے اور مجھے جیل میں قید کروگے؟
فرعون حق کو دیکھتے ہوئے بھی حضرت موسی)ع( کے خلاف حق پر اتر آتا ہے۔
یہاں پر حضرت موسی )ع( کا مقصد یہ تھا : کیا چاہتے ہو کہ شرک و ظلم سے نجات پاکر خدا واحد کی بندگی کرو؟
یہاں پر نکتہ یہ ہے کہ لوگوں کی دعوت و تربیت کے لیے ان الفاظ سے کام لیا جائے جو سب کے لیے پسندیدہ ہو (یعنی نجاست سے دوری اور پاکیزگی سب کے لیے پسندیدہ ہے(.
تاہم ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب لطف و محبت، اور منطقی گفتگو کے برابر وہ ضد کرتا ہے ! اس نے حضرت موسى )ع( کی دعوت کو جھٹلایا اور خدا کی تکذیب کی !
حضرت نے ان سے یہ سوال کیا: « قالَ أَ غَیْرَ اللهِ أَبْغیکُمْ إِلهاً وَ هُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَى الْعالَمینَ ؛ کیا خدا کے علاوہ، تمھارے لیئے معبود پیدا کرو؟! حالانکہ اس نے دنیا میں )هم عصروں کے مقابل) برتری دی»(اعراف:140)
حقیقت میں حضرت موسی ان سوالوں سے مخاطب کی فطرت کو جگانا چاہتے تھے./