ایکنا نیوز- معاشرتی یا اجتماعی زندگی میں کم ایسے لوگ ہیں جو خطا سے پاک ہوں کیونکہ انسان عام طور پر حیوانی صفت کی بنا پر خطا کرہی جاتا ہے کیونکہ انسان میں انسانی اور حیوانی صفت دونوں موجود ہیں ۔
ان غلطیوں یا خطاوں کی سزا ہمیشہ انسان ہی تک محدود نہیں رہتی بلکہ بعض اوقات دوسروں کو بھی لپیٹ میں لے آتا ہےاور انکے مفادات کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
عفو یا معافی کسی کی خطا یا غلطی سے درگزر کرنا ہے اور تربیت کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ مربی فضل و رحمت کی بنا پر ایسا کرے۔
انبیاء کی سیرت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی سیرت میں معافی و بخشش عام تھی اور یہ ایک قرآنی رویہ ہے جس کی جڑ آسمانی پیغامات ہیں، اللہ تعالی خود کو اس صفت کے حامل قرار دیتا ہے۔
قرآن میں داستان حضرت موسی(ع) میں اس چیز کو دیکھ سکتے ہیں جہاں قوم بنی اسرائیل جو ایک ضد باز قوم تھی اور غلطیوں کے باوجود اللہ انکی خطا بخش دیتا ہے«فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ ثُمَّ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَنْ ذَلِكَ وَآتَيْنَا مُوسَى سُلْطَانًا مُبِينًا ؛ کہا: خدا کو بغیر پردے کے دکھا! اور اس ظلم کی وجہ سے آسمانی بجلی انکو پکڑ میں لیتی ہے. اور پھر سامری کے بچھڑے کو تمام نشانیوں کے باجود خدا کی جگہ مان لیتی ہے، لیکن ہم نے درگزر سے کام لیا ( معاف کیا) اور موسی کو واضح نشانی دی»(نساء: 153)
یہاں پر )عفو( یہ ہے کہ حضرت موسى )ع( نے انکو دستور دیا کہ وہ معافی مانگ کر رب کی طرف پلٹ جائے ، ایکدوسرے کو قتل کرنا شروع کریں ، جیسے ہی انہوں نے یہ شروع کیا خدا نے انکو معاف کرکے رک جانے کا حکم دیا۔/