عدالت طلبی داستان حضرت موسی(ع) میں

IQNA

انبیاء کا انداز تربیت؛ موسی(ع) / 24

عدالت طلبی داستان حضرت موسی(ع) میں

4:48 - August 28, 2023
خبر کا کوڈ: 3514847
عدل یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا اور ہر ظلم ایک طرح سے نا انصافی ہے لہذا الھی نمایندوں کی عدالت طلبی نجات کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔

ایکنا نیوز- ہم انسان ایسے شخص کو جو سب کے ساتھ برابری کے ساتھ منصفانہ رویہ رکھتا ہے چاہے سیاست کے میدان میں ہو حکومت کے میدان میں، جو مظلوم کے حامی ہو اور ظالم کے خلاف ایسے شخص کو عادل اور منصف سمجھتے ہیں

اسی لیے کسی مربی یا رہنما کو اپنے رویے میں عدالت طلب ہونا چاہیے اور انصاف کو ذاتی دوستیوں اور تعلقات کی نذر نہیں کرنا چاہیے۔

 

حضرت موسی(ع) کی داستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دوستی و برادری کو عدالت و حق طلبی کی راہ میں خاطر میں نہیں لاتے۔

 

حضرت موسی(ع)  جب  30 دن کے لیے قوم سے باہر جاتے ہیں تو پھر خدا کی جانب سے اس پر دس دن کا اضافہ ہوتا ہے اور پھر انکی قوم میں چی میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں اور کچھ لوگ سامری کے بچھڑے کی پرستش شروع کرتے ہیں اس وقت حضرت ھارون کو حضرت موسی کا بھائی ہے جسقدر کوشش کرتا ہے وہ اس چیز سے باز نہیں آتے۔

 

حضرت موسی (ع) جب چالیس دن بعد آتے ہیں اور اس چیز کو دیکھتے ہیں تو شدید ناراض ہوتے ہیں اور اپنے بھائی کی سرزنش کرتے ہیں: «وَلَمَّا رَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُونِي مِنْ بَعْدِي  أَعَجِلْتُمْ أَمْرَ رَبِّكُمْ  وَأَلْقَى الْأَلْوَاحَ وَأَخَذَ بِرَأْسِ أَخِيهِ يَجُرُّهُ إِلَيْهِ  قَالَ ابْنَ أُمَّ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي وَكَادُوا يَقْتُلُونَنِي فَلَا تُشْمِتْ بِيَ الْأَعْدَاءَ وَلَا تَجْعَلْنِي مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ؛

اور جب موسی سخت غصے میں واپس لوٹتے ہیں تو کہا: «میرے بعد پرے جانشین ثابت ہوئے(میری محنت ضایع کی)! کیا رب کے فرمان (وقت بڑھانے پر)،جلد بازی کی  (اور جلد فیصلہ کیا؟!)» اور پھر لوح کو اکھاڑ لیا، اور اپنے بھائی کے سر کو جھکڑا (اور غصے میں) میں اپنی جانب کھینچا؛ اس (هارون) نے کہا: «اے میری ماں کے بیٹے! ان لوگوں نے مجھے دباو میں رکھا؛ اور نزدیک تھا کہ مجھے ہلاک کرتے پس آپ ایسا کام نہ کریں کہ دشمن میری مذمت کریں اور مجھے ستمکاروں میں شمار نہ کر!»(اعراف: 150)

الھی نمایندے فرائض کی ادائیگی میں تعلقات کو آڑے نہیں آنے دیتے لہذا وہ جانتے تھے کہ ہارون کو سزا دیں گے تو دشمن خوش ہوں گے مگر پھر اس نے ہارون کو سزا کا فیصلہ کیا۔

 

یہ کام مکمل ایک تربیتی پہلو کا حامل تھا تاکہ اس ضدی قوم کو انکے برے کام کو اجاگر کرسکے اور انکو بچھڑے کی پرستش سے دور کرسکے، موسی کا یہ کام اس لیے تھا کہ وہ دیکھا سکتے حق کی راہ میں گناہ کار جو کوئی ہو قابل سزا ہے چاہے اسکا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔

 

اسی لیے جب ھارون کی بیگناہی ثابت ہوئی اور ہارون نے منطقی دلیل سے بیگناہی ثابت کی تو موسی نے اپنے لیے اور بھائی کے لیے بخشش طلب کی۔/

نظرات بینندگان
captcha