ایکنا نیوز- امام علی (ع) خطبہ ایک سو اٹھانوے میں قرآن بارے فرماتا ہے کہ :« وَ بَحرا لا یدرک قعره ؛ ایسا سمندر ہے که گہرائی (عمق) کا ادراک ممکن نہیں.»(نهج البلاغه: خطبه198)
امام صادق (ع) فرماتے ہیں: من پیغمبر خدا (ص) کا بیٹا ہوں اور کتاب خدا بارے علم رکھتا ہوں، قرآن موجود ہے جسمیں انسان کے آغاز سے متعلق مواد ہے اور قیامت تک کے لیے اس میں موجود ہے اور زمین و آسمان، جنت و جھنم اور ماضی و مستقبل کی خبریں موجود ہیں میں انکو ہاتھ کی ہتیھلی کی مانند جانتا ہوں۔
امام صادق(ع) ایک روایت میں فرماتا ہے کہ میرے علوم کا سرچشمہ قرآن مجید ہے اور فرماتے ہیں: میں زمین وآسمان بارے باخبر ہوں اور جنت و جھنم اور جو کچھ ہوگا اس کو جانتا ہوں، اور امام کچھ رک جاتا ہے تو دیکھتا ہے کہ سننے والوں کو ادراک نہیں ہورہا، میں نے سب کچھ خدا کی کتاب سے لیا ہے، قرآن بارے ارشاد باری تعالی ہے کہ اس میں سب کچھ موجود ہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے که ائمه (ع) قرآن بارے علم رکھتا ہے اور عام انسان ہے جو اسکو مستقل طور پر کامل انداز میں درک نہیں کرتا۔
فضیلت قرآن: ایک اور وجہ بھی ہے جس کی وجہ سے قرآن کو سمندر سے تشبیہ دیا جاتا ہے، جیسے سمندر منرل اور اہم مواد کو خزانہ ہے قرآن کریم بھی تمام فضائل اور نیکیاں موجود ہیں۔
رسول اکرم (ص) فضیلت قرآن کے حوالے سے فرماتے ہیں:«فضل کلام الله تعالی علی سائر الکلام کفضل الله علی خلقه ؛ خدا کا کلام دوسروں کے کلام سے ایسا ہی افضل ہے جیسے خود خدا بندوں پر ترجیح رکھتا ہے۔/