ایکنا نیوز- انسان قدرتی طور پر آئیڈیلسٹ ہے اور اسی لیے اچھی صفات کی پرورش کے لیے دین میں پیشواوں کو نمونہ قرار دیا گیا ہے تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر اپنی سیرت بہتر بنائیں۔
نمونہ قرار دیکر تربیت کرنے کے حوالے سے اس روش کو بہترین مانا جاتا ہے جس میں آئیڈیل کو دیکھ کر انسان موثر انداز میں اپنی اصلاح کرسکتا ہے۔
یہ روش اس قدر موثر اور اہمیت کے حامل ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کو طریقہ قرار دیا ہے اور مختلف انبیاء کو آئیڈیل کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔
:« لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرا۔
یقینا تمھارے لیے رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے انکے لیے جو خدا کی امید پر ہے اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اور خدا کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔.» (احزاب: 21).
تربیت کرنے والے کا کردار اور سیرت شاگرد پر بہت زیادہ ہے یعنی مربی پہلا آپشن ہے جس کو شاگرد نمونہ قرار دیتا ہے اور اس سے اثر لیتا ہے اسی لیے قرآن میں کافی ایسے لوگ ہیں جنکو مربی اور رہنما بتایا گیا ہے اور پھر انکو نمونہ بھی متعارف کرایا ہے۔
داستان حضرت موسی علیہ السلام میں انکو یوں متعارف کرایا گیا ہے۔
»سلام عَلى مُوسى وَ هارُونَ إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنينَ إِنَّهُما مِنْ عِبادِنَا الْمُؤْمِنينَ سلام ہو موسی علیه السلام اور هارون پر، اہم اس طرح سے نیک لوگوں کو اجر دیتے ہیں، وہ دونوں ہمارے مومن بندے تھے»(صافات: 120 الی 122).
ان آیات میں موسی (ع) اور هارون کو بطور مربی اور ہدایت گر بتایا گیا ہے جو فرعون اور بنی اسرائیل کے لیے متعارف ہوا ہے اور ایک اور حصے میں انکو » مؤمنین « و » محسنین « کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے
اور یہ اس معنی میں ہے کہ آیت چاہتی ہے کہ انکو ایک نمونہ کے طور پر پیش کرے اور ایسا مربی بتائے جو دوسروں کی تربیت کے لیے کوشش کرتا ہے اور خود بطور نمونہ ٍبیان کیا جاتا ہے۔/
منابع: تھسیز؛روش تربیت اخلاقی داستان حضرت موسی علیه السلام قرآن کے رو سے اقتباس