ایکنا نیوز- اس بات کے لیے کہ انسان کسی نیک عمل کا عادی بن جائے، ایک سالہ پروگرام کی ضرورت ہے۔ یعنی فرد کو چاہیے کہ ایک سال تک اس عمل کو چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو ، مسلسل انجام دیتا رہے۔ اس کے لیے بہترین موقع یہی رمضان کا مہینہ ہے، جو اگلے رمضان تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ امام صادق علیہالسلام ایک روایت میں فرماتے ہیں:
"مَنْ عَمِلَ عَمَلًا مِنْ أَعْمَالِ الْخَیْرِ فَلْیَدُمْ عَلَیْهِ سَنَةً وَ لَا یَقْطَعْهُ دُونَهَا" "جو شخص کوئی نیک عمل انجام دینا چاہے، اسے چاہیے کہ ایک سال تک اس پر مداومت کرے اور ایک سال سے پہلے اسے ترک نہ کرے۔"
اب سوال یہ ہے کہ اس ایک سال کے دوران ہم کون سے کام کریں تاکہ رمضان میں حاصل ہونے والی روحانی کیفیت ایک عادت بن جائے؟ جب ہم کہتے ہیں "روحانی کیفیت" (معنوی یا روحانی حال)، تو اس "حال" سے مراد وہ کیفیت ہے جو موجودہ لمحے میں حاصل ہوتی ہے؛ نہ اس کا کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ ہی مستقبل۔ اس لیے ہمارا مقصد صرف ایک وقتی روحانی کیفیت حاصل کرنا نہیں، بلکہ ہم ایک پائیدار روحانی مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ "مقام" اور "حال" میں فرق یہ ہے کہ انسان مقام پر ٹھہرتا ہے، جبکہ "حال" صرف ایک لمحاتی کیفیت ہے جو آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ یقیناً حالِ معنوی بھی اپنی جگہ خوب ہے، لیکن ہمارا ہدف "مقامِ معنوی" ہونا چاہیے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے دل کے آسمان پر صرف ایک شہاب (ٹوٹتا ہوا تارا) گزرے اور لمحاتی روشنی دے، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ آسمان ستاروں اور سورج سے ہمیشہ کے لیے روشن ہو۔
تو سوال یہ ہے کہ روحانی مقام تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟ عادت کے ذریعے۔ رمضان کے بعد اگر ہم اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہمیں خود کو تربیت دینا ہوگی اور نیکیوں کا عادی بنانا ہوگا۔
اس "عادت بنانے" کا بہترین وقت رمضان کے فوراً بعد ہے، کیونکہ ہم پھر کبھی اتنے پاکیزہ، اتنے قریب، اور اتنے روحانی طاقتور نہیں ہوں گے جتنے رمضان کے بعد ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور خود کو عادت ڈالنی چاہیے درست عمل کی، درست گفتار کی، نفس سے مجاہدہ کرنے کی، گناہوں سے دوری کی، عبادت سے وابستگی کی۔ یہ سب بظاہر عملی کام ہیں، لیکن انہی اعمال کے ذریعے ہم اپنے دل کو بھی عادت دے سکتے ہیں اور آخرکار روحانی مقام تک پہنچ سکتے ہیں۔