وکیل کا مطلب قرآن کریم میں

IQNA

توکل قرآن کے رو سے / 4

وکیل کا مطلب قرآن کریم میں

4:31 - April 13, 2025
خبر کا کوڈ: 3518310
ایکنا: توکل ایک اصطلاح ہے جس کا وسیع مفہوم ہے جسمیں مذہب، عرفان اور اخلاق سب شامل اور تقوی و ایمان سے متعلق ہے۔

قرآنِ کریم میں لفظ "وکیل" بارہا استعمال ہوا ہے اور اس کے مختلف معانی اور استعمالات ہیں۔ بعض آیات میں یہ لفظ "گواہ" اور "شاہد" کے معنی میں آیا ہے۔ مثلاً سورہ یوسف میں حضرت یعقوبؑ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:

"فَلَمَّا آتَوْهُ مَوْثِقَهُمْ قَالَ اللَّهُ عَلَى مَا نَقُولُ وَكِيلٌ" (یوسف: 66)

اس آیت کی روشنی میں انسان کو چاہیے کہ وہ ہر معاہدے میں قانونی احتیاط اور مضبوطی اختیار کرے، مناسب ضمانتیں حاصل کرے اور پھر اللہ تعالیٰ کو گواہ اور وکیل بنائے۔

اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگوں پر بطور "نگران" یا "زبردستی مسلط کرنے والے" وکیل نہیں ہیں بلکہ آپ کی ذمہ داری صرف پیغامِ الٰہی کو پہنچانا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ شوریٰ میں فرمایا:

"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ اللَّهُ حَفِيظٌ عَلَيْهِمْ وَمَا أَنْتَ عَلَيْهِمْ بِوَكِيلٍ" (شوریٰ: 6)

لہٰذا رسول اللہ ﷺ کو اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر ان لوگوں کو زبردستی ہدایت دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اسی طرح قرآن میں "وکیل" کا ایک اور مفہوم "حافظ" کے طور پر آیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ وحی کو نبی ﷺ کے قلب میں محفوظ رکھنے والا ہے:

"وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا" (اسراء: 86)

اور یہی "وکیل" اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا "محافظ" اور "مددگار" بھی ہے جو شیطان کے مقابلے میں ان کی حفاظت کرتا ہے:

"إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا" (اسراء: 65)

مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ ہی وہ واحد وکیل ہے جس پر ہر معاملے میں بھروسا کیا جا سکتا ہے، جسے تمام امور سپرد کیے جا سکتے ہیں، اور جو تدبیر و کفالت کے لیے کافی ہے۔ اسی بنیاد پر "وکیل" اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں شامل ہے، اور یہی مفہوم "توکل" کے اصطلاحی مفہوم سے جُڑتا ہے؛ یعنی مکمل اطمینان، اعتماد اور انحصار اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت پر، اور مخلوق یا کسی اور سبب سے مکمل مایوسی اور بےنیازی۔

نظرات بینندگان
captcha